عقیدے کی غلطیاں
السبت _13 _ديسمبر _2025AH admin
اس حدیث کو سمجھنے میں غلطی ہے
سوال کیا گیا حضرت شیخ ابن عثیمین رحمه الله تعالیٰ سے: کیا یہ صحیح ہے کہ مرنے والے کو اس کے اہلِ خانہ کے اس پر رونے سے عذاب ہوتا ہے؟
فضیلتہ نے فرمایا: ہاں، مرنے والے کو اس کے اہلِ خانہ کے رونے سے عذاب ہوتا ہے، کیونکہ یہ رسول الله ﷺ سے ثابت ہے۔
لیکن علماء رحمهم الله تعالى نے اس حدیث کی تشریح میں اختلاف کیا ہے: بعض علماء نے اسے اس طرح سمجھا : کہ مراد صرف کافر ہے، یعنی کافر کو اس کے اہلِ خانہ کے رونے سے عذاب ہوتا ہے، نہ کہ مؤمن کو۔
لیکن یہ حدیث کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہے، کیونکہ حدیث عام ہے، اور ان لوگوں نے حدیث کو ،کافر پر محدود کیا ، تاکہ یہ سوال پیدا نہ ہو کہ انسان کو دوسروں کے گناہ کی وجہ سے عذاب کیوں ہوتا ہے۔
بعض علماء کے نزدیک مراد یہ ہے :کہ مرنے والے نے اپنے اہلِ خانہ سے وصیت کی کہ اس پر روئیں، تو یہ عمل اس کے عذاب میں شامل ہوگا کیونکہ وہ خود اس کا ذمہ دار ہے۔
اور بعض کا کہنا ہے: کہ یہ اس آدمی کے لیے ہے ،جو جانتا ہو ،کہ اس کے اہلِ خانہ مرنے والوں پر روتے ہیں ،اور اس نے مرنے سے پہلے انہیں نہ روکا، کیونکہ اس کی رضا اور خاموشی ،اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اسے پسند کرتا ہے، اور جو شخص کسی بدی پر رضا مند ہوتا ہے، گویا اس نے وہ بدی کی ہے۔
یہ تین طریقے ہیں حدیث کی تشریح کے، لیکن یہ سب ظاہری مفہوم کے خلاف ہیں، کیونکہ حدیث میں کوئی قید نہیں ہے ،کہ صرف وصیت کرنے والا یا رضا مند ہونے والا مرنے والا شامل ہے۔
حدیث کے ظاہری مفہوم کے مطابق مرنے والے کو ،اس کے اہلِ خانہ کے رونے سے عذاب ہوتا ہے، لیکن یہ عذاب سزا نہیں ہے، کیونکہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا ،کہ اس پر سزا ہو، بلکہ یہ عذاب تکلیف اور اضطراب ہے، کیونکہ وہ اس بات سے آگاہ ہوتا ہے، اور اسے تکلیف اور ناراضگی ہوتی ہے۔
جیسا کہ آپ (نبی ﷺ ) نے سفر کے بارے میں فرمایا:
“یہ عذاب کا ایک حصہ ہے”، اور سفر خود کوئی سزا یا عذاب نہیں ہے، بلکہ یہ فکر اور ذہنی اضطراب ہے۔ اسی طرح قبر میں مرنے والے کا عذاب بھی اس نوع کا ہے، کیونکہ اسے تکلیف، اضطراب اور مشقت ہوتی ہے، اور یہ گناہ کی سزا نہیں ہے۔
ماخذ: کتاب مجموع فتاویٰ ورسائل العثیمین، جلد 17، صفحہ 407






شاركنا بتعليق
بدون تعليقات حتى الآن.