عقیدے کے دروس سنتِ نبویہ سے – دوسرا درس: وحی کی ابتدا
الأربعاء _15 _أكتوبر _2025AH admin
یہ دوسرا درس سیرتِ نبویہ کے عقیدتی دروس میں سے ہے، جس میں وحی کے نزول کے واقعے، مستشرقین اور مادّی نظریہ رکھنے والوں کے شبہات، اور وحی کی صداقت پر منصفین کی شہادتوں کے ساتھ ساتھ، اللہ سبحانه و تعالیٰ کے چیلنج کا ذکر ہے کہ انسان اور جن اس جیسی کوئی چیز نہیں لا سکتے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین، والصلاة والسلام على خیر المرسلین، أما بعد:
شروع کرتے ہیں: اللہ ﷻکے نام سے، جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں، اور درود و سلام نازل ہوں ہمارے بہترین رسول ﷺ پر،
بعد ازاں: یہ دوسرا درس ہے “عقیدے کے دروس سنتِ نبویہ سے” کے سلسلے میں۔
بخاری اور مسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالى عنہا سے وحی کے آغاز کا واقعہ روایت کیا ہے، جس میں وہ فرماتی ہیں:
“یہاں تک کہ اچانک سچائی (یعنی وحی) اُن پر نازل ہوئی جبکہ وہ غارِ حرا میں تھے، فرشتہ اُن کے پاس آیا اور کہا: پڑھئیے! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں پڑھنے والا نہیں۔ فرشتہ نے مجھے مضبوطی سے پکڑا ، اور اتنا دبایا کہ میری طاقت ختم ہوگئی، پھر چھوڑ دیا۔پھر کہا: پڑھئیے! میں نے کہا: میں پڑھنے والا نہیں۔
پھر دوسری مرتبہ اسی طرح دبایا، کہ میری طاقت ختم ہوگئی، پھر چھوڑ دیا۔پھر کہا: پڑھئیے! میں نے کہا: میں پڑھنے والا نہیں۔پھر تیسری مرتبہ دبایا ، کہ میری طاقت ختم ہوگئی، پھر چھوڑ دیا۔پھر کہا: (اقرأ باسم ربك الذي خلق…” یہاں تک کہ (ما لم يعلم) تک).
پھر رسول اللہ ﷺ واپس آئے، ان کے جسم کے رگ و پٹھے لرز رہے تھے،
اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالى عنہا کے پاس جا کر فرمایا:
“مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو!”
پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالى عنہا آپ کو لے کر ، ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں،جو ان کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانۂ جاہلیت میں ،نصرانی ہو گئے تھے۔
ورقہ نے کہا: اے میرے بھتیجے! تم نے کیا دیکھا؟”رسول اللہ ﷺ نے ان کو پورا واقعہ بتایا۔ورقہ نے کہا: یہ وہی فرشتہ (ناموس) ہے جو موسیٰ علیہ الصلاة و السلام پر نازل ہوا تھا۔
کاش میں اس وقت جوان ہوتا،کاش میں زندہ رہتا جب تمہاری قوم تمہیں نکالے گی۔حدیث متفق علیہ(.
وحی کا معجزہ اور مستشرقین کا انکار:
وحی کی حقیقت ہمیشہ سے مستشرقین اور مادّی نظریہ رکھنے والوں کے لیے چیلنج بنی رہی ہے۔
انہوں نے اس کو تسلیم نہیں کیا، نہ ہی وہ اس کی کوئی مادی یا نفسیاتی توجیہ پیش کر سکے۔وہ اپنے شبہات اور تضادات میں گم رہے۔
درحقیقت، نبوت اور وحیِ الٰہی کا انکار ہی ان کے اس گمراہ کن رویے کی بنیاد ہے۔
اگرچہ انہوں نے کہا :کہ نبی ﷺ لمبے غور و فکر کے بعد نبی بنے،
مگر یہ صحیح حدیث اس نظریے کو باطل کر دیتی ہے،کیونکہ اس میں صاف بیان ہے کہ وحی اچانک نازل ہوئی، اور رسول اللہ ﷺ سخت خوف زدہ ہوگئے۔
یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ ﷺ کو اس کا کوئی پیشگی گمان نہ تھا۔
یہ واقعہ واضح ثبوت ہے کہ محمد ﷺ پر نازل ہونے والی وحی ،اُن کی اپنی ذات کا عمل نہیں تھی، بلکہ ایک بیرونی ہستی (فرشتہ) نے آکر آپ ﷺ کو مضبوطی سے تھاما،اور حکم دیا: “پڑھئیے!”یہ فرشتہ بولنے والی، حکم دینے والی اور جسم پر اثر انداز ہونے والی مخلوق تھی۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “مجھے اپنی جان کا خوف لاحق ہوا۔”
منصفین کی شہادتیں:منصف اہلِ علم میں سے کئی غیر مسلم علما نے بھی وحی کی سچائی کا اعتراف کیا۔
جیسے نجاشی، بادشاہ حبشہ، جب جعفر بن ابی طالب نے قرآن پڑھا تو انہوں نے کہا: الله کی قسم! یہ کلام اور وہ کلام جو عیسیٰ بن مریم پر نازل ہوا، ایک ہی چراغ سے نکلے ہیں۔”روایت: احمد)
نصرانی علماء میں سے متأخر عالم -بشرى میخائل- نے اپنی کتاب
“محمد رسول الله – هكذا بشرت الأناجيل”
میں بھی وحیِ محمدی کی سچائی پر دلیلیں پیش کی ہیں۔
ہمیں بطورِ مسلمان اس کی گواہی کی ضرورت نہیں،
مگر جو لوگ شک و شبہے میں مبتلا ہیں،ان کے لیے یہ ایک منصف دشمن کی شہادت کے طور پر قابلِ غور ہے۔
وحی کی صداقت اور چیلنج:
وحی کی سچائی اور اعجاز کے لیے یہ کافی ہے کہ اللہ سبحانه وتعالیٰ نے
تمام انسانوں اور جنوں کو چیلنج دیا کہ وہ اس جیسا کلام لے آئیں،
یا اس جیسی ایک سورت ہی بنا لائیں:﴿وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ﴾
(البقرة: 23–24-
ترجمه: (اور اگر تمہیں اس (قرآن) کے بارے میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے (محمد ﷺ) پر نازل کیا ہے،تو اس جیسی ایک ہی سورت لے آؤ،اور اللہﷻ کے سوا اپنے سب گواہوں (مددگاروں) کو بلالو اگر تم سچے ہو۔ پھر اگر تم ایسا نہ کر سکے — اور تم ہرگز نہیں کر سکو گے —تو اس آگ سے بچو ، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں،جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ سورۃ البقرہ، آیت 23–24.
اور ہماری آخری دعا یہ ہے کہ:تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں،
اور اللہ سبحانه وتعالیٰ درود و سلام اور برکتیں نازل فرمائے ہمارے نبی محمد ﷺ پر، اور ان کے گھر والوں اور تمام صحابہ کرام پر.
شاركنا بتعليق
بدون تعليقات حتى الآن.