پردیس کی سختیاں

الجمعة _23 _سبتمبر _2022AH admin
پردیس کی سختیاں

وطن کی جدائی نفس پر کٹھن اور طبیعتوں پہ گراں گزرتی ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ مکرمہ سے نکالا گیا آپ نے مکہ پہ نظر ڈالتے ہوئے فرمایا تھا کہ
“اللہ کی قسم تو اللہ کی سب سے بہترین زمین ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہے اگر مجھے یہاں سے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا”
(مسند احمد)
نابغہ روز گار علماء کرام کو وطن سے دوری پر جو کلفتیں اٹھانی پڑی ہیں وہ الگ داستان ہیں لیکن پردیس نے انہیں علم کی تلاش سے نہیں روکا، جلیل القدر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے جب یمن میں عبدالرزاق صنعانی رحمہ اللہ کی طرف جانے کا ارادہ کرلیا تو زاد راہ ختم ہوا یہاں تک کہ اس عظیم امام کو اپنے آپ کچھ سامان برداروں کے سامنے برائے کرایہ پیش کرنا پڑا یہاں تک کہ شہر صنعاء پہنچے، آپ کے دوستوں نے آپکی مدد کرنی چاہی لیکن آپ نے انکار کردیا، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے یمن سے نکلتے وقت کھانے کے بدلے اپنے جوتے ایک تنور والے کے ہاں گروی رکھے، حافظ ابن کثیر سفر یمن(جو کہ علم و حدیث کے حصول کا سفر تھا) میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو پیش آئی سختیوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ
“آپ کے کپڑے چوری ہوئے دروازہ بند کرکے آپ گھر میں بیٹھ گیے یہاں تک کہ آپ کے دوستوں نے آپ کو گم پایا پھر وہ آپ کے گھر آئے آپ کا پوچھا آپ نے انہیں بتایا کہ کپڑے چوری ہوئے ہیں باہر نہیں نکل سکتا انہوں نے آپ کو سونا پیش کیا آپ نے انکار کیا البتہ ایک دینار اس شرط پر لیا کہ اس کے بدلے وہ انہیں کتابوں سے لکھ کر دیں گے، آپ نے اجرت لی”
پردیس میں امام بخاری کے پاس اتنا بھی کپڑا نہ تھا کہ پردہ پوشی ہوسکے، خطیب بغدادی امام بخاری کی سیرت میں لکھتے ہیں کہ
” عمر بن حفص اشقر کہتے ہیں انہوں نے ایک دن بصرہ میں کتابت حدیث کی کلاس میں امام بخاری کو نہ پایا، کہتے ہیں ہم انکی تلاش میں نکلے یہاں تک کہ ان کے گھر پہنچے وہ بے لباس بیٹھے ہوئے تھے ان کے پلے کچھ نہیں تھا پھر ہم نے چندہ کرکے درہم جمع کیے اور ان کے لیے کپڑے خریدے اور انہیں کلاس میں لیکر آئے”
بلکہ وہ زمین پر گری چیزیں اٹھا کر کھاتے تھے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا جس سے کھانا خریدتے.
امام بخاری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں” میں آدم بن أبی ایاس کی طرف عسقلان میں نکلا، میرا زاد راہ ختم ہوا یہاں تک کہ میں زمین کے کیڑے مکوڑے کھانے لگ گیا اور کسی کو نہیں بتاتا پھر تیسرے دن ایک آنے والا شخص آیا اس نے مجھے تین دینار دیے کہ اپنے اوپر خرچ کرو”
ابو حاتم بیان کرتے ہیں جو اسے طلب علم کی راہ میں صعوبتیں پیش آئی ہیں.
” کہتے ہیں دو سو چودہ ہجری میں، میں نے بصرہ میں آٹھ ماہ قیام کیا میرا ارادہ سال کا تھا لیکن میرا خرچہ ختم ہوا یہاں تک کہ میں نے اپنے کپڑے فروخت کیے، میں اپنے دوست کے ساتھ گھومتا مشائخ کے دروس میں جاتا شام تک وہی رکتا انہیں سنتا، میرا دوست چلا گیا اور میں گھر لوٹ آیا بھوک مٹانے کے لیے پانی پینے لگ گیا، پھر صبح ہوگئی دوپہر کو میرے دوست آیے ہم دونوں ساتھ نکلے حدیث سنی، مجھے سخت بھوک لگی تھی، کل کا بھوکا تھا آج بھی بھوکا لوٹا تیسرے دن دوست گھر آئے اور کہا چلیں مشائخ سے حدیث سننے میں نے کہا کہ میں کمزوری کے باعث نہیں چل سکوں گا، اس نے پوچھا کیسی کمزوری؟ میں نے ان سے کہا آپ سے کچھ نہیں چھپاؤں گا دو دن ہوئے ہیں میں نے کچھ نہیں کھایا ہے، اس نے کہا میرے پاس ایک دینار ہے آدھا آپ کے لیے باقی آدھا سے ہم کچھ کھاتے ہیں ہم بصرہ سے نکلے میں نے ان سے نصف دینار لیا ”
خطوات إلی السعادة (ص:45)

شاركنا بتعليق


1 + أربعة عشر =




بدون تعليقات حتى الآن.