اللہ تعالیٰ کے دیدار سے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ

الأربعاء _12 _أكتوبر _2022AH admin
اللہ تعالیٰ کے دیدار سے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے اللہ عزوجل کے دیدار سے متعلق سلف کا مذہب کیا تھا پوچھا گیا؟
اور جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار آنکھوں سے نہیں ہوگا بلکہ دیدار تو کامل یقین سے عبارت ہے؟
آپ نے جواب دیا :
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
{وُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ
اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ}
[سورة القيامة:22،23]
ترجمہ :
کئی چہرے اس دن تر و تازہ ہوں گے۔
اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔
پس نظر کی اضافت چہروں کی طرف کی گئی ہے، اور چہروں کو آنکھوں سے ہی دیکھنا ممکن ہے، اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ آنکھ سے دیکھیں گے لیکن ہمارا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا احاطہ کرنے کامتقاضی نہیں ہے.
چونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں.
{وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا}
[سورة طه :110]
ترجمہ
اور ان کا علم اسے احاطہ نہیں کر سکتا۔
جب ہم علم کے زریعے اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کرسکتے تو پھر نظر کے زریعے بالاولی نہیں کرسکتے اس لیے کہ علم کے زریعے احاطہ نظر کے زریعے احاطہ کی نسبت زیادہ وسیع ہوتا ہے.
پس یہ دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نظروں سے احاطہ ناممکن ہے.
اس پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے.
{لَّا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ}
[سورة الأنعام :103]
ترجمہ
اسے آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں اور وہ آنکھوں کو دیکھ سکتا ہے.
آنکھیں اگرچہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی دیدار کریں گی لیکن احاطہ نہیں چونکہ اللہ تعالیٰ بہت عظیم ہیں، یہی سلف کا مذہب ہے، اور ان کے نزدیک تمام نعمتوں میں سے سب عظیم نعمت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے.
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دعا فرماتے تھے.
“اے اللہ میں تیرے چہرے کو دیکھنے کی لذت کا سوال کرتا ہوں”
فرمایا آنکھوں کی لذت، چونکہ یہ لذت بہت عظیم ہے، یہ وہی پائے گا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم شامل حال ہوگا، اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو بھی ان خوش نصیبوں میں سے کر دے.
یہ دیدار الہی کی حقیقت ہے جس پر سلف جمع ہیں.
البتہ جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار آنکھوں سے نہیں ہوگا بلکہ دیدار کا مطلب کمال یقین ہے تو یہ قول باطل اور خلاف دلیل ہے اور حقیقت سے دور ہے، چونکہ کمال یقین تو دنیا میں بھی موجود ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے احسان کی تفسیر میں فرمایا:
“احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی ایسی بندگی کرو جیسا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر تم نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے”
آپ اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتے ہیں گویا یہ کمال یقین ہے چنانچہ دیدار کے نصوص کو کمال یقین پر محمول کرنا باطل قول اور نصوص میں تحریف کے مترادف ہے، یہ تاویل نہیں بلکہ باطل تحریف ہے اسے کہنے والے کے منہ پر مارا جائے گا.
والله المستعان
مجموع فتاوي و رسائل العثيمين (1/222)

شاركنا بتعليق


5 + ثلاثة =




بدون تعليقات حتى الآن.