اللہ تعالی کی تعظیم سے متعلق کچھ نصوص
الثلاثاء _8 _سبتمبر _2020AH adminاللہ تعالی نے فرمایا :
{وَمَا قَدَرُوا اللّـٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖۖ وَالْاَرْضُ جَـمِيْعًا قَبْضَتُهٝ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِيْنِهٖ ۚ سُبْحَانَهٝ وَتَعَالٰى عَمَّا يُشْرِكُـوْنَ } (سورة الزمر :67)
ترجمہ :
(اور انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے، اور یہ زمین قیامت کے دن سب اسی کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے، وہ پاک اور برتر ہے اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔)
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
{وَلَوْ اَنَّمَا فِى الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّّالْبَحْرُ يَمُدُّهٝ مِنْ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللّـٰهِ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ عَزِيْزٌ حَكِـيْمٌ}(سورة لقمان :27 )
ترجمہ :
(اور اگر زمین میں جو درخت ہیں وہ سب قلم ہوجائیں اور دریا سیاہی اس کے بعد اس دریا میں سات اور دریا سیاہی کے آ ملیں تو بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں، بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے۔)
اللہ تعالی نے فرمایا:
{وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِىْ ظُلُمَاتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِىْ كِتَابٍ مُّبِيْنٍ }(سورة الانعام 59)
ترجمہ :
(اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اسے بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور خشک چیز ہے مگر یہ سب کچھ کتاب روشن میں ہیں۔)
حدیث مبارک ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک راہب آیا اور کہا کہ اے محمد ! ہم اپنی کتابوں میں پاتے ہیں کہ اللہ تعالی آسمانوں کو اپنی ایک انگلی میں زمینوں کو ایک انگلی میں،درختوں کو ایک انگلی میں،پانی مٹی کو ایک انگلی میں اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی میں رکھ کر کہیں گے میں بادشاہ ہوں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے یہاں تک کہ آپ کے داندان مبارک دکھائی دینے لگے،یہ مسکرانا راہب کی باتوں کی تصدیق تھی،پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
{و ما قدروالله حق قدره}
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مرفوع روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی روز قیامت آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں رکھیں گے اور کہیں گے میں بادشاہ ہوں کہاں ہیں جابر اور متکبر لوگ ؟ پھر زمینوں کو لپیٹ کر بائیں ہاتھ میں رکھیں گے اور فرمائیں گے میں بادشاہ ہوں کہاں ہیں جابر اور متکبر لوگ؟
(مسلم :2788)
حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بدوی آیا عرض کیا کہ جانیں مشقت میں پڑ گئیں اور بال بچے بھوکے ہوگئے اور مال برباد جانور ہلاک ہوگئے تو آپ ہمارے لیے الله سے بارش مانگیں ہم آپ کو الله کی بارگاہ میں سفارشی پیش کرتے اور اللہ تعالی کو آپ کے پاس سفارشی بناتے ہیں تب نبی صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا سبحان الله سبحان الله آپ صلی اللہ علیہ و سلم تسبیح فرماتے رہے حتی کہ یہ آپ کے صحابہ کے چہروں میں پہچانا گیا پھر فرمایا تجھ پر افسوس ہے الله تعالٰی کو کسی پر سفارشی نہیں بنایا جاتا ہے الله کی شان اس سے بہت بڑی ہے تجھ پر افسوس، کیا تجھے خبر ہے کہ الله کی شان کیا ہے اس کا عرش اس کے آسمانوں پر ایسا ہے اور اپنی انگلیوں سے اشارہ فرمایا اس پر قبہ کی طرح اور وہ چرچرا رہا ہے جیسے کجاوے کا چرچرانا سوار کی وجہ سے (ابوداؤد)
امام ذہنی نے روایت کو حسن کہا ہے
مطلب یہ کہ اللہ تعالی کی ذات بہت بلند و ارفع ہے اسے کسی مخلوق کے پاس سفارشی نہیں بنایا جاسکتا ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انکی حیات میں شفاعت طلب کی جاتی تھی پھر قیامت کے روز آپ سے شفاعت طلب کی جائے گی کہ اللہ تعالی کے دربار میں شفاعت کریں.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ
(میں وہ کچھ دیکھتا ہوں، جو تم نہیں دیکھتے۔ آسمان سے چرچرانے کی آواز نکلتی ہیں اور اس کا ایسی آواز دینا بالکل بجا ہے۔ آسمان میں چار انگشت کے برابر بھی جگہ نہیں، جہاں کوئی فرشتہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز نہ ہو۔ اللہ کی قسم! اگر تم وہ کچھ جانتے ہوتے، جو میں جانتا ہوں، تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ، بستروں پر اپنی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہو پاتےاور اللہ سےفریادیں کرتے ہوئے گلیوں چوراہوں میں نکل آتے۔)
ترمذی:امام البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن کہا ہے.
اللہ تعالی حدیث قدسی میں فرماتے ہیں کہ :(عزت میری تہہ بند ہے اور تکبر میری چادر ہے جو کوئی انہیں چھیننے کی کوشش کرے گا میں اسے عذاب دوں گا)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ادب مفرد میں ذکر کیا ہے امام البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔
فرمان نبوی ہے
آپ سے پوچھا گیا کہ کون سی آیت سب سے افضل ہے آپ نے فرمایا آیة الكرسي، اللہ تعالی کی کرسی کے مقابلے میں سات آسمان اس طرح ہیں، جیسے بیابان زمین میں کوئی چھلا پڑا ہو اور پھر کرسی کے مقابلے میں (اللہ تعالیٰ کے) عرش کی ضخامت اس طرح ہے جیسے اس چھلے کے مقابلے میں بیابان کا وجود ہے۔) اس روایت کو ابن جریر رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور امام البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے
شاركنا بتعليق
بدون تعليقات حتى الآن.