اللہ تعالی کے نام محدود نہیں

الثلاثاء _8 _سبتمبر _2020AH admin
اللہ تعالی کے نام محدود نہیں

کسی بھی صحیح حدیث میں اللہ تعالی کے مبارک ناموں کا کسی عدد معین میں شمار اور حصر کی دلالت نہیں ہے،وہ حدیث جس میں ننانوے ناموں سے متعلق تذکرہ ہے وہاں بھی مقصود ناموں کی گنتی اور شمار نہیں ہے،امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

 : “علماء کا اتفاق ہے کہ اس حدیث میں اللہ تعالی کے ناموں کا حصر اور احاطہ نہیں ہے،اس کا یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالی کے لئے ان ننانوے ناموں کے علاوہ نام نہیں،یہاں مقصود یہ ہے کہ جو ان ننانوے ناموں کو یاد کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا،یہاں ان ناموں کو یاد کرنے والے کے جنت میں داخلے کی خبر دی گئی ہے نہ کہ ناموں کے حصر سے متعلق خبر ہے”

امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ جملہ “من احصاها” پہلے جملے کی تکمیل ہے نہ کہ استثناء منفصل،جیسے کہ عربوں کا یہ قول “إن لزيد ألف درهم أعدها للصدقة” یعنی زید کے پاس ہزار درہم ہیں جو اس نے صدقہ کرنے کے لئے تیار رکھے ہیں،اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ زید کے پاس اس کے علاوہ درہم نہیں ہیں،بلکہ مقصود یہ ہے کہ زید نے صدقہ کرنے کے لئے جو درہم الگ کئے ہیں وہ ہزار ہیں.

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب “درء تعارض العقل و النقل” میں لکھتے ہیں کہ “درست بات جو جمہور کا موقف ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ کے اس فرمان کا معنی جو شخص ان ننانوے ناموں کو یاد کرے گا جنت میں داخل ہوگا اس سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ اللہ تعالی کے لئے ان کے علاوہ نام نہیں ہیں.

صحیح حدیث سے ثابت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ سجدے میں پڑھتے تھے:

《اللهُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِك》

(الہی میں تیرے غصے سے تیری رضا کی پناہ مانگتا ہوں،تیرے عذاب سے تیری بخشش کی پناہ مانگتا ہوں،تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں،مجھ میں تیری تعریف شمار کرنے کی سکت نہیں ہے تو ایسا ہی ہے جیسا تو نے اپنی تعریف کی ہے) مسلم شریف 

اللہ تعالی کے ناموں کا ننانوے ناموں تک محدود نہ ہونے کی مضبوط دلیل عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کسی بھی شخص کو کوئی دکھ اور غم لاحق ہو اور وہ یہ دعا پڑھے:

《اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، وَابْنُ عَبْدِكَ، وَابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ، سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَداً مِنْ خَلْقِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ القُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي، وَنُورَ صَدْرِي، وَجَلاَءَ حُزْنِي وَذَهَابَ هَمِّي》

ترجمہ: یا الہی! میں تیرا بندہ ہوں ، اور تیرے بندے اور باندی کا بیٹا ہوں میری پیشانی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، میری ذات پر تیرا ہی حکم چلتا ہے، میری ذات کے متعلق تیرا فیصلہ سراپا عدل و انصاف ہے، میں تجھے تیرے ہر اس نام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جو تو نے اپنے لیے خود تجویز کیا، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو وہ نام سکھایا، یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا، یا اپنے پاس علم غیب میں ہی اسے محفوظ رکھا، کہ تو قرآن کریم کو میرے دل کی بہار، سینے کا نور،غموں کیلئے باعث کشادگی اور پریشانیوں کیلئے دوری کا ذریعہ بنا دے۔

تو اللہ تعالی اسکے سب دکھڑے اور غم مٹا دیتا ہے، اور اسکی مشکل کشائی فرماتا ہے) مسند احمد 

اسی طرح حدیث شفاعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ “پھر اللہ تعالی مجھ پر اپنی تعریف کھول دے گا اور وہ تعریف اللہ تعالی کے نام اور صفات ہوں گے جن کا اس وقت مجھے ادراک نہیں ہے

شاركنا بتعليق


سبعة عشر − 10 =




بدون تعليقات حتى الآن.