اولاد کی تربیت میں والدین کی ذمہ داری

الخميس _1 _يوليو _2021AH admin
اولاد کی تربیت میں والدین کی ذمہ داری

پانچواں: خاندان اور گھر کی اصلاح و تربیت میں والدین کی ذمہ داریاں،اللہ تعالی فرماتے ہیں:
{يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا قُـوٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْـهَا مَلَآئِكَـةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّـٰهَ مَآ اَمَرَهُـمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ}
[سورة التحريم:6]
ترجمہ
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (اور) اس پر فرشتے سخت دل قوی ہیکل مقرر ہیں وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انہیں حکم دے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی اصلاح میں والدین کی مکمل ذمہ داری ہے،یہ والدین کے ذمے ہے کہ وہ اپنی اولاد کو درست راستے کی راہنمائی کرے اور غلط راستے سے روک لے،چونکہ وہ بچوں کی تربیت کے ذمہ دار ہیں یہ ذمہ داری اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور جب اللہ تعالی کسی کے ذمے کوئی ذمہ داری اور مسئولیت دیتے ہیں اور وہ شخص اس ذمہ داری میں خیانت اور کوتاہی کا ارتکاب کرتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم بن جاتا ہے۔
معزز والدین ہمیں جاننا چاہئے کہ یہ بہت بھاری ذمہ داری ہے،اس ذمہ داری کا شعور اور ادراک رکھنا ہوگا اور ہمیشہ اولاد کی تربیت میں پیش پیش رہنا ہوگا خواہ وہ بچے ہوں یا جوان اور مرد ،اولاد عمر کے جس بھی حصے میں ہوں والدین کی ذمہ داری ختم نہیں ہوتی ہے،جب وہ بچے ہوتے ہیں عمر کا یہ حصہ اہم ہوتا ہے یہ تلقین اور سیکھنے کی عمر ہوتی ہے،بچہ فوری قبول کرتا ہے،بچہ اردگرد کے ماحول سے متاثر ہوتا ہے ،دیکھا دیکھی وہی حرکتیں کرنے لگتا ہے،پھر جب وہ بڑا ہوتا ہے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تب بھی والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کو بتائیں کہ اب تم مکلف ہو تمہارے ہر عمل کو لکھا جا رہا ہے،تم نے اپنے ہر کام کا حساب دینا ہے،اسے اللہ تعالی کی معرفت دی جائے،اسے یوم آخرت کا تصور اور دنیا میں جینے کا فلسفہ و سلیقہ سکھایا جائے،یہ نرمی اور محبت سے سمجھانے اور سکھانے کی عمر ہوتی ہے،یاد رکھیں تربیت صرف حکم دینے اور روکنے کا نام نہیں ہے،تربیت صرف مناسبات اور تقریبات میں راہنمائی دینے کا بھی نام نہیں ہے،ہاں یہ بھی ضروری ہیں لیکن تربیت کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ اولاد ہم سے جو محبت کرتی ہے اس محبت کے اوپر انکی تربیت کی جائے،اس محبت کے حق سے اولاد کو سمجھایا جائے،ان کے ساتھ مکالمہ کیا جائے،انہیں بنیادی چیزیں سکھائی جائے،انہیں اسلامی تعلیمات سے آگہی دی جائے،انہیں اللہ اور رسول کی اطاعت پر لایا جائے،انہیں حدود اللہ کا علم ہو ،انہیں بتایا جائے کہ یہ دنیا عارضی اور آخرت ہمیشہ رہنے کا گھر ہے،انہیں محبت اور عزت نفس کا پاس رکھتے ہوئے تربیت کی طرف لایا جائے،دوسروں کے سامنے ان کی عزت نفس مجروح نہ کی جائے،چونکہ تربیت محبت کے اظہار کا نام ہے ،اگر آپ زیادہ سختی کریں گے تو شیطان کی طرف جانے میں اسے آسانی ہوگی۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
{فَبِمَا رَحْـمَةٍ مِّنَ اللّـٰهِ لِنْتَ لَـهُـمْ ۖ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْـهُـمْ وَاسْتَغْفِرْ لَـهُـمْ وَشَاوِرْهُـمْ فِى الْاَمْرِ ۖ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّـٰهِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ }
[سورة آل عمران:159]
ترجمہ
پھر اللہ کی رحمت کے سبب سے تو ان کے لیے نرم ہو گیا، اور اگر تو تند خو اور سخت دل ہوتا تو البتہ تیرے گرد سے بھاگ جاتے، پس انہیں معاف کردے اور ان کے واسطے بخشش مانگ اور کام میں ان سے مشورہ لیا کر، پھر جب تو اس کام کا ارادہ کر چکا تو اللہ پر بھروسہ کر، بے شک اللہ توکل کرنے والے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔
تربیت اور دلوں کو جوڑنے کیلئے اس آیت کریمہ میں پانچ اہم اصول بیان کئے گئے ہیں۔
نرمی،درگزر،بخشش طلب کرنا،مشاورت،اللہ پر توکل ۔
اہم بات یہ ہے کہ تربیت کے دوران اولاد کو ڈانٹ ڈپٹ اور انکی تربیت سے متعلق مایوسی سے گریز کیا جائے،اگر والدین کمزور ہیں یا ان میں سے کوئی ایک کمزور ہے تب بھی ان کی ذمہ داری ختم نہیں ہوتی ہے،انہیں یہ سوچ کر بچوں کو سمجھانے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے کہ بچے اب کہاں ہماری سنتے ہیں،انہیں ہر حال میں اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے اور تربیت سے متعلق اچھے لوگوں سے مشورہ بھی لینا چاہئے۔

شاركنا بتعليق


2 − 2 =




بدون تعليقات حتى الآن.