بصیرت کی منزلیں

السبت _25 _نوفمبر _2023AH admin
بصیرت کی منزلیں

ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
بصیرت دل کی روشنی ہے جس کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کے وعد و وعید، جنت جہنم اور اس میں جو کچھ تیار کیا گیا ہے دیکھتا ہے، پس بندہ دل سے گواہی دیتا ہے کہ روز محشر مخلوق کے درمیان فیصلے کیلئے رب العالمين جلوہ افروز ہوں گے، اس روز مخلوق ننگے بدن اور ننگے پیر آئیگی، ترزاو رکھا جائے گا، جہنم کو کھینچ کر لایا جائے گا اسے ستر ہزار لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو انہیں کھینچ رہے ہوں گے، اس جگہ پچاس ہزار سال ٹھہرایا جائے گا آخرت کے ان مشاہد کو دل کی آنکھوں سے دیکھنے سے آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ یہی باقی رہے گا دنیا کے متعلق یقین ہوتا ہے کہ جلد ختم ہوگی اور یہ کہ بندہ اس دنیا میں بس مسافر و اجنبی کی طرح ہے، بصیرت کے تین درجات ہیں، بصیرت اللہ تعالیٰ کے اسما و صفات میں، بصیرت اللہ تعالیٰ کے احکامات امر اور نہی میں، بصیرت وعد و وعید میں، پہلی قسم بصیرت اسما و صفات میں وہ علم ہے جو سیدھا انسان کے دل تک پہنچے کہ وہ یہ جان لے اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور کائنات کا نظام چلاتے ہیں، ایسا قدرت والا ہے کہ کوئی شے اسے عاجز نہیں کرسکتی، ایسا بصیرت والا کہ کچھ اس سے پوشیدہ نہیں،وہ علم والا، سننے والا، طاقت والا، رحم و بخشش والا،حلم و دانش والا، توبہ قبول کرنے والا اور شدید عذاب دینے والا ہے، وہ زندہ ہے اسے موت نہیں وہ قیوم ہے سوتا نہیں ہے، اسی کیلئے بادشاہت اور تمام تعریفیں ہیں، وہ اول ہے اس سے پہلے کچھ نہیں وہ آخر ہے اس کے بعد کچھ نہیں وہ ظاہر اس سے اوپر کچھ نہیں وہ باطن ہے اس سے چھپی کوئی چیز نہیں-
دوسری قسم امر اور نہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کیلئے تسلیم کامل مکمل تابعداری اور اطاعت ہے، اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے آگے ایسے سر خم کرنا کہ جس کے بعد بندے کے دل میں ایسا کوئی شبہ نہ رہے جو خبر سے ٹکرائے ایسی شہوت نہ رہے جو حکم سے ٹکرائے ایسا ارادہ نہ رہے جو اخلاص کے مخالف ہو –
مسلمان کا منہج اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے
{اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوٓا اِلَى اللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَـهُـمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَـمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۚ وَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُفْلِحُوْنَ}
[النور :51]
ترجمہ
مومنوں کی بات تو یہی ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا، اور وہی لوگ نجات پانے والے ہیں.

ایک اور جگہ فرمایا
{فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُـوْنَ حَتّـٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَـهُـمْ ثُـمَّ لَا يَجِدُوْا فِىٓ اَنْفُسِهِـمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا}
[النساء :65]
ترجمہ
سو تیرے رب کی قسم ہے یہ کبھی مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ اپنے اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں پھر تیرے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور خوشی سے قبول کریں۔

شاركنا بتعليق


أربعة − 3 =




بدون تعليقات حتى الآن.