حضرت ابراہیم علیہ السلام

الأثنين _16 _نوفمبر _2020AH admin
حضرت ابراہیم علیہ السلام

پانچواں درس:
قرآنی قصص اور سلوکی فوائد:
آج ہم ابو الانبیاء ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام پر بات کریں گے،قرآن مجید میں ان کا تذکرہ انہتر مرتبہ ہوا ہے،ان کے والد آزر تھے جیسے کہ یہ مشہور ہے آپ کا بچپن عراق میں گزرا جہاں بت پرستی کا دور دورہ تھا قوم کے لوگ سورج چاند اور ستاروں کی پرستش کرتے تھے،آپ کے والد بت فروش تھے وہ آپ کے ہاتھ بتوں کو فروخت کرنے کے لئے بھیج دیتے آپ کہیں پر کھڑے ہو کر صدا لگاتے کہ کون ان بتوں کو خریدے گا جو کسی کو نفع نقصان دینے کے مالک نہیں ہیں،کتاب و سنت میں ابراہیم علیہ السلام کی پروش کہاں اور کس زمانے میں ہوئی اس کے متعلق کچھ نہیں ملتا ہے،حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف چار طبقے اپنی نسبت کرتے ہیں،مسلمان،یہودی،عیسائی اور مشرکین،پھر یہود اور نصاری کا نسبت سے متعلق باہمی اختلاف بھی ہے،ابراہیم علیہ السلام کی ذات بہت زیادہ صفات حمیدہ کی حامل ہے یہ کہ وہ اکیلے ایک امت تھے،اللہ تعالی کے چنیدہ اور دوست تھے،اللہ تعالی نے انہیں صدیق اور نبی کا خطاب دیا،اللہ تعالی نے انہیں حلیم الطبع،رجوع کرنے والا عظیم صفات کا حامل قرار دیا،وہ سلامتی والے دل کے مالک تھے،اللہ تعالی نے انہیں رشد و راہنمائی عطا فرمائی،ان کے درجات بلند کئے،انہیں اپنا دوست چنا،روز قیامت تمام مخلوقات میں سب سے پہلے آپ کو لباس پہنایا جائے گا،ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج کے سفر پر گئے تھے وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت مامور سے ٹیک لگائے بیٹھے دیکھا،ابراپیم علیہ السلام نے اپنے باپ کو دعوت دی:
{اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ يَآ اَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْـمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِىْ عَنْكَ شَيْئًا}
[سورة مريم:42]
ترجمہ:
جب اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ تو کیوں پوجتا ہے ایسے کو جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ تیرے کچھ کام آ سکے۔
{يَآ اَبَتِ اِنِّـىْ قَدْ جَآءَنِىْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِىٓ اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا}
[سورة مريم:43]
ترجمہ:

اے میرے باپ بے شک مجھے وہ علم حاصل ہوا ہے جو تمہیں حاصل نہیں، تو آپ میری تابعداری کریں میں آپ کو سیدھا راستہ دکھاؤں گا۔
اے میرے باپ اتنے نرم اسلوب سے مخاطب کیا یہ نہیں کہ تم کافر ہو یا جاہل ہو میں تجھ سے زیادہ جانتا ہوں بلکہ یہ کہا کہ مجھے وہ علم حاصل ہوا ہے،اس میں ادب اور شفقت ہے،باپ بت پرستی میں سخت تھا چنانچہ جواب دیا:
{قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِـهَتِىْ يَآ اِبْـرَاهِيْـمُ ۖ لَئِنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُـمَنَّكَ ۖ وَاهْجُرْنِىْ مَلِيًّا}
[سورة مريم:46]
ترجمہ:کہا اے ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے پھرا ہوا ہے، البتہ اگر تو باز نہ آیا میں تجھے سنگسار کردوں گا، اور مجھ سے ایک مدت تک دور ہو جا۔
ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا:
{قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ ۖ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّىٓ ۖ اِنَّهٝ كَانَ بِىْ حَفِيًّا}
[سورة مريم: 47]
ترجمہ:کہا تیری سلامتی رہے، اب میں اپنے رب سے تیری بخشش کی دعا کروں گا، بے شک وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔
اور ابراہیم علیہ السلام نے دعا بھی کی لیکن جب ان پر واضح ہوا کہ ان کا باپ اللہ تعالی کا دشمن ہے تو پھر رک گئے اور برات کا اعلان کر دیا
ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا :
{وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ● إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ}
[سورة الشعراء 69،70]
ترجمہ:
آپ ان پر ابراہیم کی خبر پڑھ کر سنائیں جب اس نے اپنے باپ اور قوم سے کہا تم یہ کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟۔
انہیں شرک سے ڈرایا
{وَكَذٰلِكَ نُرِىٓ اِبْرَاهِيْـمَ مَلَكُوْتَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَلِيَكُـوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِيْنَ}
[سورة الأنعام:75]
ترجمہ :
اور ہم نے اسی طرح ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھائے اور تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے۔
اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو زمین و آسمان کے عجائبات اور اپنی بادشاہت کی جھلک دکھائی تاکہ اسے یقین آئے۔ابراہیم علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ مناظرہ اور موقف یقین و حجت قائم کرنے کا تھا نہ کہ شک و بے یقینی کا،ابراہیم علیہ السلام نے سورج چاند اور ستاروں کو رب شک کی بنیاد پر نہیں بلکہ مناظرے کی بنیاد پر کہا چونکہ بسا اوقات مناظر کچھ ایسی باتیں بھی کرتا ہے جن پر اس کا اعتقاد نہیں ہوتا ہے،یہ برسبیل مناظرہ اور الزام کے ہوتی ہیں،جیسے یہ کہنا کہ :
{قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ}
[سورة الأنبياء:63]
ترجمہ: فرمایا بلکہ ان کے بڑے نے کیا ہے(یعنی بتوں کو توڑا ہے)۔
یہ برسبیل مناظرہ ہے،نہ کہ شک کی بنیاد پر کہا،چونکہ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیاء کرام شک سے پاک اور معصوم ہیں،اس مقام پر ابراہیم علیہ السلام مناظر تھے انہیں اللہ تعالی نے آسمان و زمین کی بادشاہت دکھائی تھی،اللہ تعالی نے خود ابراہیم علیہ السلام سے شرک کی نفی کر دی ہے:
{وَّمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ }
[سورة آل عمران:67]
ترجمہ:
 اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔
کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جھوٹ سرزد ہوا ہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابراہیم علیہ السلام سے جھوٹ سرزد نہیں ہوا سوائے تین جگہوں کے ایک جب کہا میں بیمار ہوں،دوسرا جب کہا بڑے سے پوچھو اسی کا کام لگتا ہے یہ اور ظالم بادشاہ کے روبرو سارہ کو اپنی بہن کہا ،جیسے کہ صحیحین میں ہے کہ روز قیامت ابراہیم علیہ السلام شفاعت سے اعتذار پیش کریں گے کہ میں نے تین جھوٹ بولے ہیں،درست بات یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے یہ تینوں خلاف واقع باتیں من باب توریہ کہی تھیں نہ کہ جھوٹ بولا تھا جب کہا میں بیمار ہوں مقصود یہ تھا کہ تمہاری اس بت پرستی سے میں خود کو بیمار محسوس کرتا ہوں،بیزار ہوں،جب کہا کہ بتوں کو ان کے بڑے نے توڑا ہے یہ ان کا استہزا اور مذاق تھا جب کہ سارہ کو بہن اسلامی رشتے کے ناطے سے کہا تھا،یہ بھی بات ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے ان پر یہ تہمت نہیں لگائی کہ آپ نے جھوٹ بولے چونکہ اگر یہ جھوٹ ہوتے تو قوم ضرور کہتی قوم سمجھتی تھی کہ یہ اتمام حجت کا طریقہ ہے،قوم کی ایک عورت بیمار ہوئی اس نے نذر مانا کہ اگر میں ٹھیک ہوجاوں تو آگ کا الاو روشن کرکے ابراہیم کو اس میں پھینکوا دوں گی چنانچہ آگ کا الاو لگایا گیا آگ اتنی سخت اور الاو اتنا بڑھا تھا کہ ابراہیم علیہ السلام کو منجنیق کے ذریعے الاو میں پھینکا گیا،انہوں نے مکر کی ہم نے بھی تدبیر کی،ابراہیم علیہ السلام نے کہا میرے لئے میرا رب کافی ہے،دل و زبان سے کہا،ابراہیم علیہ السلام کا دل صدق و صفا اور اخلاص و یقین سے بھرا ہوا تھا اسے یقین تھا کہ اللہ تعالی اس آزمائش سے نکالیں گے،اللہ تعالی میری مدد کریں گے حق کو اہل باطل کے سامنے ظاہر و غالب کریں گے،پس اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو نجات دی آگ کو حکم دیا:
{قُلْنَا يَا نَارُ كُوْنِىْ بَـرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰٓى اِبْـرَاهِيْـمَ}
[سورة الأنبياء:69]
ترجمہ :
ہم نے کہا اے آگ! ابراہیم پر سرد اور راحت ہوجا۔
آگ کی خصلت جلانے کی تھی لیکن ابراہیم علیہ السلام کے لئے یہ آگ گلزار بن گئی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا
سارے جانور آگ بجھا رہے تھے صرف چھپکلی پھونک مار کر آگ کو دہکا رہی تھی اس لئے چھپکلی کے قتل کرنے کا حکم ہے۔(صحیح حدیث )
قوم پر حجت پوری کرنے کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے مکہ اور شام کی طرف ہجرت اختیار کی اور کہا میں اپنے رب کی طرف ہجرت کر رہا ہوں،ان تمام حجتوں کے بعد قوم میں سے صرف لوط علیہ السلام جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے وہ ایمان لائے اور ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ نے ایمان لایا ،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کہ حضرت سارہ کی غیرت بڑھ گئی تو ابراہیم علیہ السلام ام اسماعیل کو لیکر ہجرت پر نکلے۔
انہیں لیکر مکہ میں زمزم والی جگہ پر پہنچ گیا تب مکہ میں کسی انسان اور پانی کے آثار نہ تھے،ابراہیم علیہ السلام نے ام اسماعیل اور بچے کو اس جگہ چھوڑ دیا ان کے پاس ایک تھیلی میں کھجور اور برتن میں پانی تھا اور واپس جانے لگے پیچھے سے ہاجرہ بھی چلتی گئی آوازیں دیتی رہی ابراہیم علیہ السلام نے مڑ کر نہ دیکھا پھر ہاجرہ علیہا السلام نے پوچھا کیا ہمیں اللہ کے حکم پر یہاں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟جواب دیا ہاں پھر وہ کہنے لگی ایسی بات ہے تو اللہ تعالی ہمیں ضائع نہیں کریں گے،طبری میں روایت موجود ہے جبرائیل علیہ السلام نے آواز دی آپ کون ہیں؟ کہا ہاجرہ ام اسماعیل،جبرائیل علیہ السلام نے پوچھا یہاں کس کے سہارے پر ہیں؟ جواب دیا اللہ تعالی کے،جبرائیل علیہ السلام نے کہا بہترین کار ساز کے سہارے پر ہیں وہ کافی ہوگا:
{اَلَيْسَ اللّـٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٝ}
[سورة الزمر:36]
ترجمہ :کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں۔
(روایت کو ابن حجر نے حسن کہا ہے)
ہاجرہ علیہا السلام کے پاس موجود پانی ختم ہوا انہوں نے صفا و مروہ کے درمیان پانی کی تلاش میں سات چکر لگائے فرشتہ آیا اس جگہ پانی(زمزم) کا چشمہ نکال دیا پانی بہنے لگا ہاجرہ علیہا السلام پانی کو روکتی رہی کہ کہیں ضائع نہ ہوجائے۔۔
ابراہیم علیہ السلام کے قصے میں کچھ سبق اور نصیحتین
{اَلْحَـمْدُ لِلّـٰهِ الَّـذِىْ وَهَبَ لِىْ عَلَى الْكِبَـرِ اِسْـمَاعِيْلَ وَاِسْحَاقَ ۚ اِنَّ رَبِّىْ لَسَـمِيْعُ الـدُّعَآءِ} [سورة إبراهيم:39 ]
ترجمہ:اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اتنی بڑی عمر میں اسماعیل اور اسحاق بخشے، بے شک میرا رب دعاؤں کا سننے والا۔
اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر نعمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اسے شکر کی توفیق ملے،تمام نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت اسلام کی نعمت ہے جب کہ لوگوں کی اکثریت گمراہی اور کفر و شرک پر ہے ایسے میں ہمیں اسلام کی نعمت کا حاصل ہونا سعادت مندی ہے،کون ہے وہ ذات جس نے تمہیں موحد اور نمازی بنایا،تم میں خیر کی محبت اور برائی سے نفرت ودیعت کی،شکر قناعت اور رضا مندی کا باعث بنتا ہے اور شکر کا پھل برکت و راحت ہے۔
سبق یہ بھی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی اتنی طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ایمان صرف لوط علیہ السلام اور ان کی بیوی سارہ نے لایا باقی قوم نے گمراہی کا راستہ اختیار کیا لیکن پھر بھی ابراہیم علیہ السلام کا مقام و مرتبہ رفعت و بلندی اللہ تعالی کے ہاں قائم و دائم ہے،ثابت ہوا کہ نتائج اور کثرت تعداد معیار نہیں ہے بلکہ معیار اخلاص اور سچی جدوجہد ہے،صبر و ثبات ہے۔
سبق یہ بھی ہے کہ حضرت ہاجرہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی ہمیں ضائع نہیں کریں گے،امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں جب بندہ اپنے لئے اور دوسروں کے لئے حق پر ڈٹ جاتا ہے اسے پھر کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے،جو اللہ کا ہوگا اس کو کس کا ڈر ہوگا؟
اللہ تعالی عمل کی توفیق سے نوازے ۔اللھم آمین

شاركنا بتعليق


7 + تسعة =




بدون تعليقات حتى الآن.