حضرت اسماعیل علیہ السلام

الأربعاء _25 _نوفمبر _2020AH admin
حضرت اسماعیل علیہ السلام

چھٹا درس:
بسلسلہ قرآنی قصص اور سلوکی فوائد:
آج کے درس میں ہم حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سیرت پر بات کریں گے اللہ تعالی فرماتے ہیں:
{وَاذْكُرْ فِى الْكِتَابِ اِسْـمَاعِيْلَ ۚ اِنَّهٝ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا }
[سورة مريم:54]
ترجمہ:اور کتاب میں اسماعیل کا بھی ذکر کر، بے شک وہ وعدہ کا سچا اور بھیجا ہوا پیغمبر تھا۔
مشہور یہی ہے کہ اسماعیل علیہ السلام عرب کی طرف بھیجے گئے تھے اور عرب خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے اور حج کو شرکیات سے آلودہ کیا تھا ایک بت کوہ صفا پر دوسرا مروہ پر رکھا ہوتا تھا،وہ طواف کرتے،سیٹیاں بجاتے،تالیاں بجاتے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:{وَمَا كَانَ صَلَاتُـهُـمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَـآءً وَّتَصْدِيَةً ۚ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُـمْ تَكْـفُرُوْنَ}
[سورة الأنفال :35]
ترجمہ:اور کعبہ کے پاس ان کی نماز سوائے سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے اور کچھ نہیں تھی، سو عذاب چکھو اس سبب سے کہ تم کفر کرتے تھے۔
عرب دین اسماعیل علیہ السلام پر تھے پہلا شخص جس نے عربوں میں بت پرستی کو فروغ دیا عمرو بن لحي خزاعی تھا یہ قریش سے پہلے مکہ پر حکمرانی کرتے تھے یہ جدہ سے لیکر آئے پھر عربوں نے بھی بتوں کی پوجا شروع کی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے پہلے حنیف(دین اسماعیل علیہ السلام پر) تھے اور حنفاءمیں سے زید بن عمرو بن نفیل بھی تھے حنیف اور حنفاء سے مراد دین اسماعیل علیہ السلام پر،البتہ اللہ تعالی کا یہ فرمان کہ :{وَوَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى}
[سورة الضحى:7]
ترجمہ:
اور آپ کو (شریعت سے) بے خبر پایا پھر (شریعت کا) راستہ بتایا۔
یہ شریعت کی تفاصیل سے متعلق ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ شرک پر تھے پس آپکی راہنمائی اس چیز کی طرف کی گئی جو آپ پہلے نہیں جانتے تھے {وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۚ مَا كُنْتَ تَدْرِىْ مَا الْكِتَابُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنَاهُ نُـوْرًا نَّهْدِىْ بِهٖ مَنْ نَّشَآءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَاِنَّكَ لَتَهْدِىٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِـيْمٍ}
[سورة الشورى: 52]
ترجمہ:
اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے قرآن نازل کیا، آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے اور لیکن ہم نے قرآن کو ایسا نور بنایا ہے کہ ہم اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں، اور بے شک آپ سیدھا راستہ بتاتے ہیں۔
عبداللہ بن جدعان (مکہ کا بہت بڑا سخی جو حاجیوں کی خدمت کرتا ) کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا اس کے انسانی خدمت کے کام اس کو کوئی فائدہ نہیں دیں گے؟؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “کیسے عائشہ؟ جبکہ اس نے کبھی یہ تک نہیں کہا :اللھم اغفرلی! یا اللہ مجھے معاف فرما۔
اہل مکہ دین اسماعیل علیہ السلام پر تھے لیکن بعد میں انہوں نے کفر اور گمراہی کا راستہ اختیار کیا،لیکن جنہوں نے کفر اور شرک کا راستہ نہ اپنایا وہ حنفاء کی زمرے میں رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں اکیلے نبی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:《اللہ تعالی نے سارے عرب میں سے قریش کو چن لیا،قریش سے بنو ھاشم کو اور پھر بنو ھاشم سے مجھے۔》(مسلم )
عرب قحطان اور عدنان یہ دو قبیلے ہیں علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عدنان قبیلہ اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے ہے،اور قحطان سے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ اولاد اسماعیل علیہ السلام سے نہیں ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عدنان میں سے تھے،اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر اسماعیل علیہ السلام سے متعلق فرمایا کہ وہ وعدے کے سچے تھے۔
{وَاذْكُرْ فِى الْكِتَابِ اِسْـمَاعِيْلَ ۚ اِنَّهٝ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا }
[سورة مريم:54]
ترجمہ:اور کتاب میں اسماعیل کا بھی ذکر کر، بے شک وہ وعدہ کا سچا اور بھیجا ہوا پیغمبر تھا۔
اللہ تعالی نے ان کا وصف یہ بیان فرمایا کہ وہ رسول اور نبی تھے پس وہ حضرت اسحاق علیہ السلام سے افضل تھے چونکہ حضرت اسحاق علیہ السلام صرف نبی تھے،حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے گھر والوں کو نماز اور زکاة کا حکم دیتے تھے۔
{وَكَانَ يَاْمُرُ اَهْلَـهٝ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِۖ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِيًّا }
[سورة مريم:55]
ترجمہ:
اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم کرتا تھا اور وہ اپنے رب کے ہاں پسندیدہ تھا۔
رب کا پسندیدہ قرار دینا یہ کمال کی تعریف ہے،پسندیدہ وہ ہوتا ہے جو تمام اطاعت والے کاموں کو انجام دے کر اللہ تعالی کے ہاں پہلا انعام کا حقدار ٹھہرے،اسماعیل علیہ السلام جب بڑے ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے ایک عظیم امتحان میں ڈالا انہیں اپنے جگر کے ٹکڑے اور چہیتے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا،یہ امتحان محبت اور دوستی کا تھا،ابراہیم علیہ السلام اللہ کے دوست تھے یہ محبت کی معراج ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 《اہل زمین میں سے اگر میں کسی کو اپنا دوست بناتا تو ابو بکر کو بناتا لیکن مجھے اللہ تعالی نے دوست بنایا ہے》(صحیحین)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل سے کہا:
{فَلَمَّا بَلَـغَ مَعَهُ السَّعْىَ قَالَ يَا بُنَىَّ اِنِّـىٓ اَرٰى فِى الْمَنَامِ اَنِّـىٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَـرٰى ۚ قَالَ يَآ اَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِـىٓ اِنْ شَآءَ اللّـٰهُ مِنَ الصَّابِـرِيْنَ}
[سورة الصافات:102]
ترجمہ :
پھر جب وہ اس کے ہمراہ چلنے پھرنے لگا کہا اے بیٹے! بے شک میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس دیکھ تیری کیا رائے ہے، کہا اے ابا! جو حکم آپ کو ہوا ہے کر دیجیے، آپ مجھے ان شا اللہ صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔
انبیاء کرام کے خواب حق ہوتے ہیں اور وحی کا درجہ رکھتے ہیں،چنانچہ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کو دعوت دیتے ہوئے نرمی اور محبت سے مخاطب کیا تھا بعینہ اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد ابراہیم علیہ السلام کو اسی محبت سے جواب دیا،بے شک نیکی کا پھل دنیا میں بھی ملتا ہے،کہا ابا جس چیز کا آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ کر گزریے،ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند کو ذبح کرنے کے لئے لٹایا،باپ بیٹے دونوں دل و جان سے اس عظیم کام کی بجا آوری کے لئے تیار ہوئے بظاہر یہ بہت مشکل اور کٹھن مرحلہ تھا کہ شفیق اور مہربان باپ اپنے چہیتے بیٹے کو ذبح کرے،یہ اتنا بڑا معاملہ تھا کہ جس سے پہاڑ ہل جائیں،جب بیٹا ذبح ہونے کے لئے تیار ہوا باپ ذبح کرنے کے لئے تیار ہوا تب اللہ تعالی نے ایک مینڈھا بھیجا:
{وَنَادَيْنَاهُ اَنْ يَّـآ اِبْـرَاهِـيْمُ●قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِيْنَ}
[سورة الصافات:104،105}
ترجمہ:
اور ہم نے اسے پکارا کہ اے ابراھیم!
تو نے خواب سچا کر دکھایا، بے شک ہم اسی طرح نیکو کاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔
اس خواب کو اپنے دل اور عمل سے سچ کر دکھایا،اے ابراہیم تو اس امتحان میں پورا پورا اترا،جب بیٹے کو پیشانی کے بل گرایا تب اللہ تعالی نے ایک مینڈھا عطا کر دیا:
{وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْـحٍ عَظِـيْمٍ }
[سورة الصافات:107]
ترجمہ:
اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض دیا۔
پس امتحان مکمل ہوا ،ابراہیم علیہ السلام تسلیم و رضا اور توحید کے ساتھ اس امتحان پر پورے اترے اب ذبح کرنے کی ضرورت نہ رہی،دوسری طرف حضرت اسماعیل علیہ السلام کی فرماں برداری کے کیا کہنے کہ
وہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمعیل کو آداب فرزندی
اسمعیل علیہ السلام نے انکار اور نافرمانی کی بجائے اللہ تعالی کے حکم کو نافذ کرنے کے لئے اپنے والد کا حوصلہ بڑھایا،اس ادب اور تربیت کو دیکھیں اس حسن توکل پر غور کریں کہ صبر و توکل کی نسبت اپنے نفس کی طرف نہیں کی بلکہ اللہ تعالی کی طرف کردی،مختصر یہ کہ جب باپ بیٹے اللہ تعالی کی اس آزمائش میں پورے اترے تو اللہ تعالی کی طرف سے انکی قربانی قبول ہونے کی خوشخبری ملی ان کے پاس مینڈھا آیا یہ تو دنیا میں خوشخبری تھی رب کی جنتوں میں جو کچھ تیار کر رکھا ہے وہ بہت بڑا ہے۔
اس قصے میں سبق
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں بیٹے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھا اور صبح بیٹے کو جب یہ خواب سنایا تو بیٹے نے کہا ابا جان آپ اللہ تعالی کے حکم پر عمل کیجئے۔ اس میں ایک مسلمان کے لئے یہ سبق ہے کہ ہر حال میں اللہ کے احکامات کی بجا آواری کرے اس میں کوئی پس و پیش اور تردد سے کام نہ لے خواہ وہ حکم بظاہر کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو ،اور اس حکم کو پورا کرتے ہوئے دل میں کسی قسم کا کوئی حرج اور تنگی محسوس نہ کرے۔
{فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُـوْنَ حَتّـٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَـهُـمْ ثُـمَّ لَا يَجِدُوْا فِىٓ اَنْفُسِهِـمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا}
[سورة النساء:65]
سو تیرے رب کی قسم ہے یہ کبھی مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ اپنے اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں پھر تیرے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور خوشی سے قبول کریں۔
جو شخص خوش دلی اور کھلے دل سے اللہ تعالی کے حکموں پر لبیک کہے گا اسے لذت محسوس ہوگی جب کہ جو حکموں کو ماننے سے انکار کرے گا وہ دائمی تنگی اور بددلی میں رہے گا اس کے لئے عبادات بوجھ محسوس ہوں گے۔
{اَفَمَنْ شَرَحَ اللّـٰهُ صَدْرَهٝ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُـوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ ۚ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوْبُـهُـمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّـٰهِ ۚ اُولٰٓئِكَ فِىْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ }
[سورة الزمر:22]
ترجمہ:
بھلا جس کا سینہ اللہ نے دین اسلام کے لیے کھول دیا ہے سو وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی میں ہے، سو جن لوگوں کے دل اللہ کے ذکر سے متاثر نہیں ہوتے ان کے لیے بڑی خرابی ہے، یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔
اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت علم ،معرفت اور ڈگری کا نام نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے خاص رزق ہے جسے چاہے وہ عطا کرتا ہے۔
اللہ تعالی حدیث قدسی میں فرماتے ہیں: 《اے میرے بندو تم سب گمراہ ہو سوائے ان کے جن کو میں نے ہدایت دیا 》
سبق یہ بھی ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے متعلق فرمایا گیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکاة کا حکم دیتا تھا.
{وَكَانَ يَاْمُرُ اَهْلَـهٝ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِۖ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِيًّا }
[سورة مريم:55]
ترجمہ:
اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم کرتا تھا اور وہ اپنے رب کے ہاں پسندیدہ تھا۔
امام رازی فرماتے ہیں وہ دنیا میں بھی دین کی فکر کرتے تھے۔جب کہ آج لوگوں کی اکثریت دنیا میں مگن ہے،لوگ اپنے بچوں کی تربیت اور آخرت کی فکر نہیں کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے۔:
{يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا قُـوٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْـهَا مَلَآئِكَـةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّـٰهَ مَآ اَمَرَهُـمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ}
[سورة التحريم:6]
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (اور) اس پر فرشتے سخت دل قوی ہیکل مقرر ہیں وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انہیں حکم دے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:《کوئی ایسا بندہ، جسے اللہ کسی رعایا کا نگران بناتا ہے اور مرنے کے دن وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ اپنی رعیت سے دھوکا کرنے والا ہے، تو اللہ اس پر جنت حرام کردیتا ہے“۔》
(بخاری )
جس طرح ان کو اچھے کاموں کا حکم دینا ہے اسی طرح برے کاموں سے روکنا بھی ہے۔
{يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُـمْ ۚ وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّـٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ }
[سورة التغابن:14]
اے ایمان والو! بے شک تمہاری بیویوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن بھی ہیں سو ان سے بچتے رہو، اور اگر تم معاف کرو اور درگزر کرو اور بخش دو تو اللہ بھی بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔
یہ عداوت بچوں کی تربیت میں عدم دلچسپی اور انہیں برے کاموں سے نہ روکنے کی وجہ سے ہوگی.

شاركنا بتعليق


17 − واحد =




بدون تعليقات حتى الآن.