حضرت داود علیہ السلام

الخميس _7 _يناير _2021AH admin
حضرت داود علیہ السلام

بسلسلہ
قرآنی قصص اور فوائد سلوکیہ
گیارھواں درس :
بنی اسرائیل کا شیوہ مظالم اور انبیاء کرام کو قتل کرنا تھا چنانچہ اللہ تعالی نے ان پر جابر و ظالم بادشاہوں کو مسلط کر دیا،اللہ تعالی نے فرمایا :
{اَلَمْ تَـرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسٰىۢ اِذْ قَالُوْا لِنَبِيٍّ لَّـهُـمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُـمْ اِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا ۖ قَالُوْا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَاَبْنَآئِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْـهِـمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْـهُـمْ ۗ وَاللّـٰهُ عَلِـيْـمٌ بِالظَّالِمِيْنَ}
[سورة البقرة:246]
ترجمہ:
کیا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو موسیٰ کے بعد نہیں دیکھا، جب انہوں نے اپنے نبی سے کہا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم اللہ کی راہ میں لڑیں، پیغمبر نے کہا کیا یہ بھی ممکن ہے کہ اگر تمہیں لڑائی کا حکم ہو تو تم اس وقت نہ لڑو؟ انہوں نے کہا ہم اللہ کی راہ میں کیوں نہیں لڑیں گے حالانکہ ہمیں اپنے گھروں اور اپنے بیٹوں سے دور کر دیا گیا ہے، پھر جب انہیں لڑائی کا حکم ہوا تو سوائے چند آدمیوں کے سب پھر گئے، اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

ان کا جہاد دفاعی جہاد تھا نہ کہ اقدامی جہاد چونکہ اقدامی جہاد امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے جب کہ سابقہ انبیاء کرام صرف دفاعی جہاد کے مکلف تھے،اس لئے کہ سابقہ انبیاء اپنی خاص قوموں کی طرف بھیجے گئے تھے جبکہ ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لئے بھیجے گئے ہیں،سابقہ امتوں کیلئے مال غنیمت بھی جائز نہیں تھی وہ جب کسی جنگ میں مال غنیمت حاصل کرتے تو ایک جگہ جمع کرتے آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی امت محمدیہ کے لئے مال غنیمت کو جائز رکھا گیا،مختصر یہ کہ بنی اسرائیل کو ان کے پیغمبر نے بتا دیا کہ اللہ تعالی نے طالوت کو تمہارے اوپر بادشاہ چن لیا ہے،تمہیں ان کی قیادت میں دشمنوں سے جنگ لڑنی ہے لیکن قوم نے اعتراض کر لیا کہ بھلا طالوت ہمارا بادشاہ کیسے ہوسکتا ہے بادشاہت کے حق دار تو ہم ہیں،چونکہ طالوت مال دار نہیں تھے،اسی طرح بنی اسرائیل کے بادشاہ یھودہ بن یعقوب کی نسل سے چلے آ رہے تھے جبکہ طالوت بنیامین کی نسل میں سے تھا یعنی نہ تو بنی اسرائیل کے بادشاہوں کے سلسلے سے تھا اور نہ ہی انبیاء کے سلسلے سے،لیکن داود علیہ السلام نے قوم سے کہا:
{وَقَالَ لَـهُـمْ نَبِيُّـهُـمْ اِنَّ اللّـٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا ۚ قَالُوٓا اَنّـٰى يَكُـوْنُ لَـهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ اِنَّ اللّـٰهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِى الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللّـٰهُ يُؤْتِىْ مُلْكَهٝ مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَاللّـٰهُ وَاسِعٌ عَلِـيْ}
[سورة البقرة:247]
ترجمہ:
ان کے نبی نے ان سے کہا بے شک اللہ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر فرمایا ہے، انہوں نے کہا اس کی حکومت ہم پر کیوں کر ہوسکتی ہے اس سے تو ہم ہی سلطنت کے زیادہ مستحق ہیں اور اسے مال میں بھی کشائش نہیں دی گئی، پیغمبر نے کہا بے شک اللہ نے اسے تم پر پسند فرمایا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ فراخی دی ہے، اور اللہ اپنا ملک جسے چاہے دیتا ہے، اور اللہ کشائش والا جاننے والا ہے۔

علم اور جسمانی طاقت یہ دو صفات طالوت میں تھیں جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے انہیں منتخب فرمایا اللہ تعالی جس پر چاہئے عنایات و کرم کی برکھا برسائے،تمام معاملات اسی کے ہاتھ میں ہیں ہم اس کے بندے اور غلام اس کے فرامین اور حکموں کے تابع ہیں،طالوت اپنی قوم کو لیکر دشمنوں سے لڑنے نکلے راستے میں قوم کو شدید پیاس لگی یہ موقع تھا کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو آزمائش و امتحان میں ڈالا ،راہ چلتے ہوئے فلسطین و اردن کے درمیان پانی کی ایک نہر نظر آ گئی،شدید پیاس کا عالم تھا طالوت نے قوم کو حکم خداوندی سنایا کہ پانی پینے کی ممانعت ہے سوائے کوئی اگر چلو بھر پے لے تو اس کی اجازت ہے چنانچہ قوم پانی پر ٹوٹ پڑی تھوڑی سے مومنین باقی بچے جنہوں نے پانی نہیں پیا،قرآن مجید نے اس کا نقشہ کھینچا :
{ فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُـوْدِ قَالَ اِنَّ اللّـٰهَ مُبْتَلِيْكُم بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّىْ وَمَنْ لَّمْ يَطْعَمْهُ فَاِنَّهٝ مِنِّىٓ اِلَّا مَنِ اغْتَـرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهٖ ۚ فَشَرِبُوْا مِنْهُ اِلَّا قَلِيْلًا …

شاركنا بتعليق


19 − ثلاثة عشر =




بدون تعليقات حتى الآن.