حضرت سلیمان علیہ السلام

الخميس _21 _يناير _2021AH admin
حضرت سلیمان علیہ السلام

حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داود علیہ السلام کے فرزند تھے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں سترہ مقامات پر حضرت سلیمان علیہ السلام کا تذکرہ فرمایا:
رب تعالی کا فرمان ہے۔
{وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُوْدَ ۖ وَقَالَ يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْـرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَىْءٍ ۖ اِنَّ هٰذَا لَـهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ}
[سورة النمل:16]
ترجمہ:
اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا، اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر قسم کے ساز و سامان دیے گئے ہیں، بے شک یہ صریح فضیلت ہے۔
یہ وراثت علم و حکمت اور نبوت کی تھی نہ کہ مال و دولت کی چونکہ انبیاء کرام کے وارث نہیں ہوتے ہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے فضائل
حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ سبحانہ و تعالی نے بصیرت،دانش،نبوت،علم و عدل جیسی خوبیوں سے نوازا مستزاد اللہ تعالی نے انہیں پرندوں کی بولیوں کی سمجھ و فہم عطا فرمائی اور عظیم بادشاہت عنایت کی۔
سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا
ایک دن سلیمان علیہ السلام نے اپنے لشکر میں ہدہد پرندے کو موجود نہ پا کر ان کی غیر موجودگی سے متعلق پوچھا کہ
{وَتَفَقَّدَ الطَّيْـرَ فَقَالَ مَا لِـىَ لَآ اَرَى الْـهُـدْهُدَ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَآئِبِيْنَ○اُعَذِّبَنَّهٝ عَذَابًا شَدِيْدًا اَوْ لَاَذْبَحَنَّهٝٓ اَوْ لَيَاْتِيَنِّىْ بِسُلْطَانٍ مُّبِيْنٍ○فَمَكَثَ غَيْـرَ بَعِيْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍ بِنَبَاٍ يَقِيْنٍ ○اِنِّىْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِكُهُـمْ وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَىْءٍ وَّلَـهَا عَرْشٌ عَظِيْـمٌ ○وَجَدْتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ وَزَيَّنَ لَـهُـمُ الشَّيْطَانُ اَعْمَالَـهُـمْ فَصَدَّهُـمْ عَنِ السَّبِيْلِ فَـهُـمْ لَا يَـهْتَدُوْنَ}
[سورة النمل:20,21,22,23,24]
ترجمہ
اور پرندوں کی حاضری لی تو کہا کیا بات ہے جو میں ہُدہُد کو نہیں دیکھتا کیا وہ غیر حاضر ہے۔میں اسے سخت سزا دوں گا یا اسے ذبح کر دوں گا یا وہ میرے پاس کوئی صاف دلیل بیان کرے۔پھر تھوڑی دیر کے بعد ہُدہُد حاضر ہوا اور کہا کہ میں حضور کے پاس وہ خبر لایا ہوں جو حضور کو معلوم نہیں اور سبا سے آپ کے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں۔میں نے ایک عورت کو پایا جو ان پر بادشاہی کرتی ہے اور اسے ہر چیز دی گئی ہے اور اس کا بڑا تخت ہے۔میں نے پایا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے سوا سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کو انہیں آراستہ کر دکھایا ہے اور انہیں راستہ سے روک دیا ہے سو وہ راہ پر نہیں چلتے۔
سبا یمن میں ایک شہر ہے جب کہ سلیمان علیہ السلام بیت المقدس فلسطین میں ہوتے تھے۔ہدہد نے سبا قوم کے کفر و شرک کی نکیر و انکار کیا:
{اَلَّا يَسْجُدُوْا لِلّـٰهِ الَّـذِىْ يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُـوْنَ}
[سورة النمل:25]
ترجمہ
اللہ ہی کو کیوں نہ سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کو ظاہر کرتا ہے، اور سب جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو۔
یہ بات معلوم ہے کہ پرندے حیوانات جمادات سب اللہ تعالی کی حمد و ثناء بیان کرتے ہیں ۔
{تُسَبِّـحُ لَـهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْـهِنَّ ۚ وَاِنْ مِّنْ شَىْءٍ اِلَّا يُسَبِّـحُ بِحَـمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُـمْ ۗ اِنَّهٝ كَانَ حَلِيْمًا غَفُوْرًا}
[سورة الإسراء:44]
ترجمہ
ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے اس کی پاکی بیان کرتے ہیں، اور ایسی کوئی چیز نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے، بے شک وہ بردبار بخشنے والا ہے۔
اللہ تعالی نے ہدہد کو توحید کی معرفت اور سمجھ عطا فرمائی اس لئے ہدہد نے قوم سبا کے شرک پر انکار کیا، حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہد کی تصدیق و تکذیب نہیں کی بلکہ فرمایا :
{قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْكَاذِبِيْنَ}
[سورة النمل:27]
ترجمہ
کہا ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کہ تو سچ کہتا ہے یا جھوٹوں میں سے ہے۔
اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا بلقیس کی طرف ایک خط لکھ بھیجا خط پڑھ کر ملکہ سبا نے اپنی قوم کے سرداروں سے مشورہ مانگا کہ :
{قَالَتْ يَآ اَيُّـهَا الْمَلَاُ اِنِّـىٓ اُلْقِىَ اِلَـىَّ كِتَابٌ كَرِيْـمٌ○اِنَّهٝ مِنْ سُلَيْمَانَ وَاِنَّهٝ بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ○اَلَّا تَعْلُوْا عَلَـىَّ وَاْتُوْنِىْ مُسْلِمِيْنَ○قَالَتْ يَآ اَيُّـهَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِىْ فِـىٓ اَمْرِيْۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّـٰى تَشْهَدُوْنِ ○قَالُوْا نَحْنُ اُولُوْا قُوَّةٍ وَّّاُولُوْا بَاْسٍ شَدِيْدٍۙ وَّالْاَمْرُ اِلَيْكِ فَانْظُرِىْ مَاذَا تَاْمُرِيْنَ○
قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسَدُوْهَا وَجَعَلُوٓا اَعِزَّةَ اَهْلِهَآ اَذِلَّـةً ۚ وَكَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ ○وَاِنِّىْ مُرْسِلَـةٌ اِلَيْـهِـمْ بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةٌ بِـمَ يَرْجِــعُ الْمُرْسَلُوْنَ}
[سورة النمل:29,30,31,32,33,34,35]
ترجمہ
کہنے لگی اے دربار والو! میرے پاس ایک معزز خط ڈالا گیا ہے۔وہ خط سلیمان کی طرف سے ہے اور وہ یہ ہے، اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بے حد مہربان نہایت رحم والا ہے۔میرے سامنے تکبر نہ کرو اور میرے پاس مطیع ہو کر چلی آؤ۔
کہنے لگی اے دربار والو! مجھے میرے کام میں مشورہ دو، میں کوئی بات تمہارے حاضر ہوئے بغیر طے نہیں کرتی۔کہنے لگے ہم بڑے طاقتور اور بڑے لڑنے والے ہیں، اور کام تیرے اختیار میں ہے سو دیکھ لے جو حکم دینا ہے۔کہنے لگی بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں اسے خراب کر دیتے ہیں اور وہاں کے سرداروں کو بے عزت کرتے ہیں، اور ایسا ہی کریں گے۔اور میں ان کی طرف کچھ تحفہ بھیجتی ہوں پھر دیکھتی ہوں کہ ایلچی کیا جواب لے کر آتے ہیں۔
ملکہ سبا کی قوم کے سرداروں نے امن اور جنگ دونوں میں ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کر دیا لیکن چونکہ وہ عقلمند ملکہ تھیں وہ جانتی تھیں کہ دنیاوی بادشاہ اپنی قوت اور تسلط قائم رکھنے کیلئے لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں انہیں قیدی بناتے ہیں ساتھ ساتھ وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ حضرت سلیمان عدل پسند بادشاہ ہیں چنانچہ انہوں نے ایک ایلچی کے ساتھ تحفہ بھیج دیا لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام نے تحفہ لینے سے انکار کر دیا اور دو چیزوں کی ڈیمانڈ کر دی ایک یہ کہ تکبر سے کام نہ لیں اور میرے پاس مطیع ہو کر چلی آو اور کہا :
{فَلَمَّا جَآءَ سُلَيْمَانَ قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍۚ فَمَآ اٰتَانِىَ اللّـٰهُ خَيْـرٌ مِّمَّآ اٰتَاكُمْۚ بَلْ اَنْتُـمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ○اِرْجِــعْ اِلَيْـهِـمْ فَلَنَاْتِيَنَّـهُـمْ بِجُنُـوْدٍ لَّا قِبَلَ لَـهُـمْ بِـهَا وَلَنُخْرِجَنَّـهُـمْ مِّنْهَآ اَذِلَّـةً وَّّهُـمْ صَاغِرُوْنَ}
[سورة النمل:36,37]
ترجمہ
پھر جب سلیمان کے پاس آیا فرمایا کیا تم میری مال سے مدد کرنا چاہتے ہو، سو جو کچھ مجھے اللہ نے دیا ہے اس سے بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے، بلکہ تم ہی اپنے تحفہ سے خوش رہو۔ان کی طرف واپس جاؤ ہم ان پر ایسے لشکر لے کر پہنچیں گے جن کا وہ مقابلہ نہ کر سکیں گے اور ہم انہیں وہاں سے ذلیل کر کے نکال دیں گے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام جان گئے تھے کہ ملکہ سبا مسلمان ہو کر آئیں گی یہ حضرت سلیمان علیہ السلام خود سمجھ گئے تھے یا پھر وحی کے ذریعے بتا دیا گیا تھا،اسی طرح بلکہ سبا کا ایلچی بھی سمجھدار تھا چنانچہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے تحفہ واپس کیا وہ خاموش رہے،حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا:
{قَالَ يَآ اَيُّـهَا الْمَلَاُ اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِىْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ يَّاْتُوْنِىْ مُسْلِمِيْنَ○قَالَ عِفْرِيْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ ۖ وَاِنِّىْ عَلَيْهِ لَقَوِىٌّ اَمِيْنٌ○قَالَ الَّـذِىْ عِنْدَهٝ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ يَّرْتَدَّ اِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٝ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْۖ لِيَبْلُوَنِـىٓ ءَاَشْكُـرُ اَمْ اَكْفُرُ ۖ وَمَنْ شَكَـرَ فَاِنَّمَا يَشْكُـرُ لِنَفْسِهٖ ۖ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّىْ غَنِىٌّ كَرِيْـمٌ }
[النمل :38,39,40]
ترجمہ
کہا اے دربار والو! تم میں کوئی ہے کہ میرے پاس اس کا تخت لے آئے اس سے پہلے کہ وہ میرے پاس فرمانبردار ہو کر آئیں۔جنوں میں سے ایک دیو نے کہا میں تمہیں وہ لا دیتا ہوں اس سے پہلے کہ تو اپنی جگہ سے اٹھے، اور میں اس کے لیے طاقتور امانت دار ہوں۔اس شخص نے کہا جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے تیری آنکھ جھپکنے سے پہلے لا دیتا ہوں، پھر جب اسے اپنے روبرو رکھا دیکھا تو کہنے لگا یہ میرے رب کا ایک فضل ہے، تاکہ میری آزمائش کرے کیا میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری، اور جو شخص شکر کرتا ہے اپنے ہی نفع کے لیے شکر کرتا ہے، اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بھی بے پروا عزت والا ہے۔
“الذی عندہ علم ” سے مراد کون ہیں اس بابت اختلاف ہے کچھ کا کہنا ہے اس سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہے کچھ کے نزدیک انسانوں میں سے کوئی مومن تھا اور کچھ کے نزدیک جنات میں سے مومن تھا ان سب اقوال کیلئے کوئی دلیل نہیں ہے،بہرحال تخت بلقیس کو لایا گیا ملکہ بلقیس ایمان کا اعتراف کرتے ہوئے پہنچ گئی شرک کی تاریکیوں میں ہونے کا بھی اعتراف کرلیا.
حضرت سلیمان علیہ السلام اور گھوڑوں کا قصہ قرآن مجید کی زبانی
{اِذْ عُرِضَ عَلَيْهِ بِالْعَشِيِّ الصَّافِنَاتُ الْجِيَادُ○فَقَالَ اِنِّـىٓ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْـرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّيْۚ حَتّـٰى تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ○رُدُّوْهَا عَلَىَّ ۖ فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوْقِ وَالْاَعْنَاقِ ○وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَاَلْقَيْنَا عَلٰى كُرْسِيِّهٖ جَسَدًا ثُـمَّ اَنَابَ}
[سورة ص:31,32,33,34]
ترجمہ
جب اس کے سامنے شام کے وقت تیز رو گھوڑے حاضر کیے گئے۔تو کہا میں نے مال کی محبت کو یاد الٰہی سے عزیز سمجھا، یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا۔ان کو میرے پاس لوٹا لاؤ، پس پنڈلیوں اور گردنوں پر (تلوار) پھیرنے لگااور ہم نے سلیمان کو آزمایا تھا اور اس کی کرسی پر ایک دھڑ ڈال دیا تھا پھر وہ رجوع ہوا۔
ابن کثیر اور دیگر کئی مفسرین کی تفسیر کے مطابق گھوڑوں کی وجہ سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی نماز رہ گئی تھی چنانچہ انہوں نے سورج کو واپس لانے کیلئے کہا اور نماز پڑھ کر گھوڑوں کو قتل کر دیا اس لئے کہ گھوڑوں کی وجہ سے نماز سے غافل ہوئے تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی آزمائش
اللہ تعالی نے فرمایا:
{وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَاَلْقَيْنَا عَلٰى كُرْسِيِّهٖ جَسَدًا ثُـمَّ اَنَابَ}
[سورة ص:34]
ترجمہ
اور ہم نے سلیمان کو آزمایا تھا اور اس کی کرسی پر ایک دھڑ ڈال دیا تھا پھر وہ رجوع ہوا۔
سلیمان علیہ السلام کی آزمائش سے متعلق درست قول یہ ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ کہا میں آج کی رات اپنی تمام بیویوں سے ہمبستری کروں گا تاکہ ان سے شہسوار پیدا ہوں جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور اس پر إن شاء الله نہیں کہا نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے ایک بیوی کے کوئی بیوی حاملہ نہیں ہوئی۔ اور حاملہ بیوی نے بھی جو بچہ جنا، وہ ناقص یعنی آدھا تھا۔”
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”اگر سلیمان إن شاء الله کہہ لیتے تو سب سے مجاہد پیدا ہوتے۔
(صحیح بخاری)
اس کے بعد سلیمان علیہ السلام نے اللہ سے رجوع اور توبہ کرلی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالی سے بادشاہت کا سوال کیوں کیا؟
سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دنیاوی مقصد کیلئے بادشاہت طلب نہیں کی تھی بلکہ وہ اس کے ذریعے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا چاہتے تھے اور یہ حق تھا،یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول فرمائی،قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کیلئے ان گھوڑوں کے مقابلے میں اللہ تعالی نے ہواوں کو مسخر کردیا چنانچہ ان کا تخت ہواوں کے دوش پر صبح سے دوپہر تک ایک مہینے کی مسافت تک اڑتا جاتا اور دوپہر سے شام تک ایک مہینے کی مسافت۔
تانبے کا چشمہ
اللہ تعالی کی جانب سے حضرت سلیمان ؑکو عطا کیے گئے معجزات میں سے ایک پگھلے ہوئے تانبے کے وہ چشمے ہیں، جن میں جنّات بڑی بڑی دیگیں، لگن، برتن اور بحری مہمات میں کام کرتے تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی دانش مندی کا واقعہ
ایک مرتبہ حضرت داؤد علیہ کے دربار میں دو افراد ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوئے۔ ان میں ایک بکری والا اور دوسرا کسان تھا۔ کسان نے دعویٰ کیا کہ’’ اس شخص کی بکریوں نے میرے کھیت میں گھس کر اُسے تباہ و برباد کر ڈالا۔‘‘ حضرت دائود ؑ نے اپنے علم و تجربے کے پیشِ نظر فیصلہ دیا کہ کھیتی کا نقصان بکریوں کے ریوڑ کی قیمت کے برابر ہے، لہٰذا، بکریوں کا پورا ریوڑ بہ طورِ تاوان مدعی کو دے دیا جائے۔ فریقین عدالت سے باہر نکلے، تو دروازے پر نوعُمر حضرت سلیمان ؑسے ملاقات ہوگئی۔ اُنہوں نے مقدمے کے بارے میں دریافت کیا اور فیصلہ سُن کر دونوں کو لے کر والدِ محترم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کی’’ اگر اجازت ہو، تو اس فیصلے سے متعلق اپنی رائے پیش کروں۔‘‘اجازت ملنے پر حضرت سلیمان ؑ بولے’’ آپؑ بکریاں تو کھیت والے کو دے دیں تاکہ وہ اُن سے فائدہ اٹھاتا رہے اور کھیت کی زمین بکریوں والے کے سپرد کر دیں کہ وہ اُس میں کاشت کر کے کھیت کو اُس حالت میں لے آئے، جیسا بکریوں کے چرنے سے پہلے تھا۔ پھر کھیت، واپس کسان کو دے دیں اور بکریاں، بکری والے کو۔‘‘ حضرت داؤد ؑ کو یہ فیصلہ بہت پسند آیا ۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے’’اور داؤدؑ اور سلیمانؑ کو یاد کیجیے، جب کہ وہ کھیت کے معاملے میں فیصلہ کر رہے تھے کہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو چَر گئیں (روندگئی) تھیں اور ہم اُن کے فیصلے میں موجود تھے اور ہم نے اُس کا صحیح فیصلہ سلیمانؑ کو سمجھا دیا۔داود علیہ السلام کا فیصلہ بھی صحیح تھا جب کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا فیصلہ صحیح ترین تھا،دونوں کو اللہ تعالی نے حکمت و دانش سے نوازا تھا۔
کیا حضرت سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کی تعمیر فرمائی؟
صحیح بات یہ ہے کہ بیت المقدس کی تعمیر حضرت یعقوب بن اسحاق علیہ السلام نے کی تھی جب کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسکی تجدید کی تھی،ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر فرمائی تھی بیت اللہ اور بیت المقدس کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کا دورانیہ ہے جیسے کہ صحیحین کی روایت میں ہے،حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے درمیان ہزار سال بھی زائد دورانیہ ہے۔
سلیمان علیہ السلام کی وفات
ان کی موت کا نقشہ قرآن مجید نے یوں کھینچا ہے
{فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّـهُـمْ عَلٰى مَوْتِهٓ ٖ اِلَّا دَآبَّةُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٝ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُـوْا يَعْلَمُوْنَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوْا فِى الْعَذَابِ الْمُهِيْنِ}
[سورة سبا:14]
ترجمہ
پھر جب ہم نے اس پر موت کا حکم کیا تو انہیں اس کی موت کا پتہ نہ دیا مگر گھن کے کیڑے نے جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا، پھر جب گر پڑا تو جنوں نے معلوم کیا کہ اگر وہ غیب کو جانتے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں نہ پڑے رہتے۔
اور لاٹھی پر ٹیک لگانے کی مدت زیادہ طویل نہ تھی۔
فوائد و اسباق
حضرت داود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی دینے میں اللہ تعالی کی یہ حکمت کہ اللہ تعالی اپنے نبیوں پر بھی قدرت رکھتے ہیں جسے چاہے نبی بنائے اور جسے چاہے نبی اور بادشاہ دونوں،اللہ تعالی چاہتے تو سب انبیاء کرام کو نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی عطا فرماتے وہ اپنے فیصلوں پر قادر اور حکمت والا ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ سبحانہ و تعالی نے گھوڑوں کے بدلے میں ہواوں کو ان کے لئے مسخر کر دیا اور یہ بغیر مشقت کے انہیں جہاں چاہتے لیکر جاتی تھیں،بے شک اللہ تعالی اپنے بندوں کو خوب نوازتا ہے ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے جنات اور شیاطین کو تسخیر کرنا خواہ وہ مومن ہوں یا پھر کافر اللہ تعالی نے یہ قدرت صرف سلیمان علیہ السلام کو عطا کی تھی چنانچہ جو لوگ بعد کے زمانوں میں شیاطین اور جنات کو قابو کرکے ان سے خدمات لینا کا دعوی کرتے ہیں ان کا دعوی درست نہیں ہے چونکہ جنات اور شیاطین بلا معاوضہ کسی کیلئے مطیع نہیں ہوتے بدلے میں ان کے لئے بھی کام کرنا ہوتا ہے اور بسا اوقات اسکی قیمت کفر اختیار کرکے چکانی پڑتی ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالی کا شکر گزار اور اس کی طرف رجوع کرنے والا برگزیدہ پیغمبر تھا چنانچہ اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی قوتوں پر غرور و تکبر کی بجائے انہوں نے شکر سے کام لیا،لہذا جسے اللہ تعالی طاقت،قوت اور نعمت عطا فرمائے اسے اللہ تعالی کا شکر بجا لاتے ہوئے عاجزی اور انکساری اختیار کرنی چاہئے۔

شاركنا بتعليق


16 − 10 =




بدون تعليقات حتى الآن.