حضرت شعیب علیہ السلام

الخميس _31 _ديسمبر _2020AH admin
حضرت شعیب علیہ السلام

دسواں درس:
بسلسلہ قرآنی قصص اور فوائد سلوکیہ
قوم شعیب علیہ السلام کا مسکن مدین تھا جو کہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا قوم شعیب اسی کی نسل سے تھی اللہ تعالی نے اس قوم کی طرف شعیب علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا شعیب علیہ السلام کا تذکرہ قرآن مجید میں 11 مرتبہ ہوا ہے،شعیب علیہ السلام کو انبیاء کرام کا خطیب بھی کہا جاتا ہے،قرآن مجید میں شعیب علیہ السلام کے کسی معجزے کا ذکر نہیں آیا ہے چونکہ قرآن مجید کتاب ہدایت ہے اصولوں کا تذکرہ اس کا منہج ہے نہ کہ یہ تاریخ کی کتاب ہے کہ جس میں تمام تفصیلات بیان ہوں،قوم شعیب علیہ السلام کی پانچ بد خصلتیں تھیں جن کی وجہ سے ان پر عذاب آیا ،کفر باللہ،ڈاکہ زنی جو بھی ان کی بستی سے گزرتا اس سے عشر غنڈا ٹیکس لینا،ناپ تول میں کمی،زمین میں فساد،لوگوں کو حق کی راہ سے روکنا۔
اللہ تعالی نے فرمایا :
{كَذَّبَ اَصْحَابُ الْاَيْكَـةِ الْمُرْسَلِيْنَ}
[سورة الشعراء:176]
ترجمہ :
بن والوں نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا۔
“الایکه”( بن )ایک درخت تھا جسکی قوم شعیب اللہ تعالی کو چھوڑ کر عبادت کرتی تھی،شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت دی کہ حرامخوری سے زیادہ فائدے کی نسبت حلال طریقے سے تھوڑا سا فائدہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔
شعیب علیہ کی دعوت دین کے اسالیب
شعیب علیہ السلام نے اخلاق حسنہ،ترغیب اور ترھیب کے ذریعے قوم کو دعوت دی انہیں اللہ تعالی کی نعمتیں یاد دلائی،انہیں دو اصولوں کی طرف بلایا اللہ تعالی کی بندگی،اس کے حقوق کی بجا آوری اور لوگوں پر ظلم نہ کرنا اور ان پر واضح کیا کہ وہ اپنی اس دعوت کے بدلے کوئی اجرت نہیں چاہتے ہیں۔
قوم شعیب علیہ السلام کا ردعمل
شعیب علیہ السلام کی دعوت کے جواب میں قوم نے مذاق ،تمسخر اور تکذیب کا راستہ اپنایا،حضرت شعیب علیہ السلام کو ملک بدری اور سنگسار کرنے کی دھمکی دی،لوگوں کو ان سے روکا انہیں جادوگر کہا۔
شعیب علیہ السلام نے اپنے رب سے مدد مانگ لی۔
{رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْـرُ الْفَاتِحِيْنَ}
[سورة الأعراف:89]
ترجمہ :
اے ہمارے رب! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے موافق فیصلہ کر دے اور تو بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
قوم کی ہلاکت کے بعد شعیب علیہ السلام ان باقیات اور بستی میں آکر ان خطاب کیا جس طرح بدر کے دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کنویں میں پڑے کفار قریش کے سرداروں سے خطاب کیا تھا۔
قوم شعیب علیہ السلام پر نازل عذاب کس قسم کا تھا؟
قوم شعیب علیہ السلام پر تین طرح کے عذاب نازل کئے گئے،آسمان سے چیخ،زمین کا پھٹنا زلزلہ،شدید گرمی۔
{فَاَخَذَتْـهُـمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِىْ دَارِهِـمْ جَاثِمِيْنَ}
[سورة الأعراف:78]
ترجمہ
پس انہیں زلزلہ نے آ پکڑا، پھر صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے رہ گئے۔
{وَاَخَذَ الَّـذِيْنَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِى دِيَارِهِـمْ جَاثِمِيْنَ}
[سورة هود:67]
ترجمہ:
اور ان ظالموں کو ہولناک آواز نے پکڑ لیا پھر صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے رہ گئے۔
{فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُـمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّـلَّـةِ ۚ اِنَّهٝ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْـمٍ }
[سورة الشعراء:189]
ترجمہ :
پھر اسے جھٹلایا پھر انہیں سائبان والے دن کے عذاب نے پکڑ لیا، بے شک وہ بڑے دن کا عذاب تھا۔
مذکورہ تینوں عذاب قوم شعیب علیہ السلام پر نازل ہوئے۔
سائبان والے دن کے عذاب سے متعلق امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ و النھایہ میں لکھا ہے کہ قوم شعیب علیہ السلام کو شدید گرمی لاحق ہوئی ایسی گرمی کہ پانی اور سائے نے بھی فائدہ نہ دیا پھر انہیں ایک بادل نظر آیا پوری قوم اس بادل کے سائے میں بارش کی امید لیکر جمع ہوئی جب سب جمع ہوگئی تو ان پر اللہ تعالی کے عذاب کا کوڑا برسا اور مذکورہ عذاب سے قوم دو چار ہوئی۔
مسائل علمی میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ انبیاء کرام کی دو قسمیں ہیں ایک وہ انبیاء جنہیں کفار سے جہاد اور قتال کا حکم دیا گیا ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَكَاَيِّنْ مِّنْ نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهٝ رِبِّيُّوْنَ كَثِيْـرٌۚ فَمَا وَهَنُـوْا لِمَآ اَصَابَـهُـمْ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَكَانُـوْا ۗ وَاللّـٰهُ يُحِبُّ الصَّابِـرِيْنَ }
[سورة آل عمران:146]
ترجمہ:
اور کئی نبی ہیں جن کے ساتھ ہو کر بہت سے اللہ والے لڑے ہیں، پھر اللہ کی راہ میں تکلیف پہنچنے پر نہ ہارے ہیں اور نہ سست ہوئے اور نہ وہ دبے ہیں، اور اللہ ثابت قدم رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
ان انبیاء کرام میں ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم داود علیہ السلام وغیرہ شامل ہیں ۔
دوسری قسم ان انبیاء کرام کی ہے جن کو جہاد اور قتال کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ دعوت اور صبر کا حکم ملا ان انبیاء کرام کی قوموں کو اللہ تعالی نے ہلاک کر دیا اس قسم میں حضرت نوح علیہ السلام حضرت لوط علیہ السلام حضرت ھود علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام وغیرہ شامل ہیں۔
دروس اور اسباق
وہ گناہ جس کا ارتکاب کمزور کرے وہ زیادہ سزا کا مستحق ہے بنسبت اگر وہ گناہ کوئی طاقت ور کرے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین طرح کے لوگ ہیں جن سے اللہ تعالی قیامت کے دن بات تک نہیں کریں گے نہ انہیں پاک کریں گے نہ انکی طرف رحمت کی نظر سے دیکھیں گے،بوڑھا زانی،جھوٹا بادشاہ اور متکبر فقیر ۔
(مسلم شریف)
قوم شعیب مال دار تھی لیکن پھر بھی ناپ تول میں کمی کرتی تھی۔
سبق یہ بھی ہے کہ نماز برائی اور فحاشی سے روکتی ہے جیسے شعیب علیہ السلام کی قوم نے حضرت شعیب علیہ السلام سے کہا کہ
{قَالُوْا يَا شُعَيْبُ اَصَلَاتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْـرُكَ مَا يَعْبُدُ اٰبَآؤُنَـآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِىٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشَآءُ ۖ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِيْـمُ الرَّشِيْدُ}
[سورة هود :87]
ترجمہ
انہوں نے کہا اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم ان چیزوں کو چھوڑ دیں جنہیں ہمارے باپ باپ دادا پوجتے تھے یا اپنے مالوں میں اپنی خواہش کے مطابق معاملہ نہ کریں، بے شک تو البتہ بردبار نیک چلن ہے۔
سبق یہ بھی ہے کہ ایک داعی اور مبلغ قوم کے لئے آئیڈیل ہوتا ہے ان کے لئے اسوہ حسنہ ہوتا ہے۔
{قَالَ يَا قَوْمِ اَرَاَيْتُـمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّىْ وَرَزَقَنِىْ مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰى مَآ اَنْـهَاكُمْ عَنْهُ ۚ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيْقِىٓ اِلَّا بِاللّـٰهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ }
[هود:88]
کہا اے میری قوم! دیکھو تو سہی اگر مجھے اپنے رب کی طرف سے سمجھ آ گئی ہے اور اس نے مجھے عمدہ روزی دی ہے، اور میں یہ نہیں چاہتا کہ جس کام سے تجھے منع کروں میں اس کے خلاف کروں، میں تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح ہی چاہتا ہوں، اور مجھے تو صرف اللہ ہی سے توفیق حاصل ہوتی ہے، میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
یہی انبیاء کرام اور سچے داعین کا طریقہ اور شیوہ ہے نہ کہ منافقوں کفار اور اہل شہوات کی روش،یہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ اچھے داعی کا قوم پر اثر پڑتا ہے جب عہد فاروقی رضی اللہ عنہ میں قحط سالی پڑی تو آپ نے اپنے گھر والوں کو کھانے سے روک دیا یہاں تک کہ عوام بھی وہی کھانا کھائے،اور کہا اللہ کی قسم عمر کے گھر والے تب تک کھانا نہیں کھائیں گے جب تک عام لوگ نہیں کھائیں گے عمر کے گھر والے تب تک گوشت نہیں کھائیں گے جب تک عام لوگ نہیں کھائیں گے سوکھی روٹیاں کھانے کی وجہ سے خلیفہ وقت کے چہرے کی رنگت تبدیل ہوگئی تھی۔
سبق یہ بھی ہے کہ ایک داعی صبر و برداشت کا پیکر ہو حضرت شعیب علیہ السلام صابر تھے حلیم و بردبار تھے نرم دم گفتگو تھے ایک داعی کے لئے لازم ہے کہ وہ قوم کے جاہلوں کی تکلیف اور اذیت پر صبر کرے ۔

شاركنا بتعليق


20 − تسعة عشر =




بدون تعليقات حتى الآن.