حضرت لوط علیہ السلام
الثلاثاء _15 _ديسمبر _2020AH adminنواں درس:
بسلسلہ قرآنی قصص اور فوائد سلوکیہ
حضرت لوط علیہ السلام حاران کا بیٹا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھتیجا تھا،قرآن مجید میں ستائیس بار ان کا تذکرہ آیا ہے،جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے گھر والوں کے ہمراہ ہجرت کی تب حضرت لوط علیہ السلام بھی ان کے ساتھ تھے،حضرت لوط علیہ السلام کی قوم اخلاقی زوال کی پاتال میں گری ہوئی تھی،جہالت،بے حیائی،برائیوں کا ارتکاب ان کا وطیرہ بن چکا تھا،فطرت سلیمہ سے بغاوت اختیار کرتے ہوئے وہ ہم جنس پرستی کی غلاظت میں پڑ گئے تھے،بدفعلی ان میں عام ہوچکی تھی،لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کی طرف دعوت دی لیکن قوم نے انہیں جھٹلایا
{كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ ِۨ الْمُرْسَلِيْنَ}
[الشعراء:160]
ترجمہ :
(لوط کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا)
ایک پیغمبر کو جھٹلانا سب کو جھٹلانے کے مترادف ہے،ان کے بھائی لوط علیہ السلام نے ان سے فرمایا(یہاں اخوت سے مراد وطن اور مٹی کا رشتہ ہے البتہ اخوت اسلامی صرف مسلمانوں کے درمیان ہی ہوگی)
{اَتَاْتُوْنَ الذُّكْـرَانَ مِنَ الْعَالَمِيْنَ}
[الشعراء:165]
ترجمہ
(کیا تم دنیا کے لوگوں میں لڑکوں پر گرے پڑتے ہو۔)
قوم نے جواب دیا
{قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ تَنْتَهِ يَا لُوْطُ لَتَكُـوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِيْنَ}
[الشعراء:167]
ترجمہ
(کہنے لگے اے لوط! اگر تو ان باتوں سے باز نہ آیا تو ضرور تو نکال دیا جائے گا)
ان کی فطرت میں بگاڑ کا اندازہ لگا لیں کہ وہ پاکیزگی،عفت اور پاک دامنی کو جرم گردانتے تھے جس کی سزا وطن بدری سمجھتے تھے۔
{وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٓ ٖ اِلَّآ اَنْ قَالُـوٓا اَخْرِجُوْهُـمْ مِّنْ قَرْيَتِكُمْ ۖ اِنَّـهُـمْ اُنَاسٌ يَّتَطَهَّرُوْنَ}
[الأعراف:82]
ترجمہ
(اور اس کی قوم نے کوئی جواب نہیں دیا مگر یہی کہا کہ انہیں اپنے شہر سے نکال دو، یہ لوگ بہت ہی پاک بننا چاہتے ہیں۔)
اللہ تعالی نے فرمایا :
{وَجَآءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَـهٝ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ}
[الحاقة:9]
ترجمہ :
(اور فرعون اور اس سے پہلے کے لوگ اور الٹی ہوئی بستیوں والے گناہ کے مرتکب ہوئے)
اس آیت میں موتفکات سے مراد قوم لوط ہے،ان کا یہ نام اس لئے رکھا گیا کہ ان کی بستی الٹ دی گئی تھی،قوم لوط کے جرائم کی فہرست طویل ہے،کفر،بدفعلی،راہگیروں کو لوٹنا اور عمومی برائیاں،اللہ تعالی نے عذاب سے پہلے قوم لوط کی طرف انسانی شکل میں فرشتوں کو بھیجا
{وَلَمَّا جَآءَتْ رُسُلُـنَآ اِبْـرَاهِيْـمَ بِالْبُشْرٰىۙ قَالُوٓا اِنَّا مُهْلِكُوٓا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ ۖ اِنَّ اَهْلَـهَا كَانُـوْا ظَالِمِيْنَ }
[العنكبوت:31]
(اور جب ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے، کہنے لگے ہم اس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں، یہاں کے لوگ بڑے ظالم ہیں۔)
{قَالَ اِنَّ فِيْـهَا لُوْطًا ۚ قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِيْـهَا ۖ لَنُنَجِّيَنَّهٝ وَاَهْلَـهٝٓ اِلَّا امْرَاَتَهٝ كَانَتْ مِنَ الْغَابِـرِيْنَ}
[العنكبوت:32 ]
ترجمہ
(کہا اس میں لوط بھی ہے، کہنے لگے ہم خوب جانتے ہیں جو اس میں ہے، ہم لوط اور اس کے کنبہ کو بچا لیں گے مگر اس کی بیوی وہ پیچھے رہ جانے والوں میں ہوگی۔)
فرشتے خوبصورت انسانی شکل میں آئے،کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت جبرائیل میکائیل اور اسرافیل علیھم السلام تھے حضرت لوط پہلے اس بات سے لاعلم تھے کہ ان کے پاس جو مہمان آئے ہیں وہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اس وجہ سے لوط علیہ السلام اپنے مہمانوں کو لیکر پریشان ہوئے ان سے اپنی قوم کے متعلق کہا کہ یہ خبیث فطرت ہیں مہمانوں کی خاطر مدارت نہیں کرتے ہیں لیکن بدفعلی سے متعلق صراحت نہیں فرمائی۔
{وَلَمَّآ اَنْ جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيٓءَ بِـهِـمْ وَضَاقَ بِـهِـمْ ذَرْعًا وَّقَالُوْا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ ۖ اِنَّا مُنَجُّوْكَ وَاَهْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغَابِـرِيْنَ}
[العنكبوت:33]
ترجمہ
(اور جب ہمارے بھیجے ہوئے لوط کے پاس آئے تو اسے ان کا آنا برا معلوم ہوا اور تنگ دل ہوئے فرشتوں نے کہا خوف نہ کر اور غم نہ کھا، بے شک ہم تجھے اور تیرے کنبہ کو بچا لیں گے مگرتیری بیوی پیچھے رہنے والوں میں ہوگی)
جب فرشتے لوط علیہ السلام کے گھر میں داخل ہوئے تو قوم کے لوگ بھاگتے ہوئے پہنچے اور کہا
{قَالُـوٓا اَوَلَمْ نَنْـهَكَ عَنِ الْعَالَمِيْنَ}
[الحجر:70]
ترجمہ
(انہوں نے کہا کیا ہم نے تمہیں دنیا بھر کی حمایت سے منع نہیں کیا ہے۔)
ان مہمانوں سے متعلق قوم کو مخبری لوط علیہ السلام کی بیوی نے کر دی تھی یہ خیانت تھی البتہ عزت میں نہیں بلکہ دین و ایمان میں چونکہ انبیاء کی عزتیں اللہ…
شاركنا بتعليق
بدون تعليقات حتى الآن.