حیا برائیوں کے لئے سدباب

الأثنين _16 _نوفمبر _2020AH admin
حیا برائیوں کے لئے سدباب

حیا وہ اخلاق ہے جو انسان کو قول و فعل میں برائی ترک کرنے پر ابھارتا ہے اور اللہ تعالی کی ذات فضل و منعم کی شان میں کوتاہی سے روکتا ہے،حیا کو اپنانے اور حیا کی طرف لوگوں کو بلانا حقیقت میں برائی اور معصیت سے رکنے اور بھلائی و خیر کی طرف بڑھنے کی دعوت ہے.

حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں” شقاوت کی علامتوں میں سے دل کا سخت ہونا،آنکھ کا خشک ہونا،حیا کا کم ہونا،دنیا میں جی لگانا اور لمبی امیدیں ہیں”

حضرت ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں” عقل مند شخص کو چاہئے کہ وہ حیا میں ہمیشگی کرے،چونکہ حیا عقل کی اساس ہے،بھلائی کا بیج ہے اور اسے ترک کرنا جہالت اور برائی کا بیج ہے.

حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 《بے شک لوگوں نے سابقہ نبوتوں کی باتوں میں سے جو پایا تھا اس میں یہ بھی تھا کہ جب حیا نہ ہو تو پھر جو چاہیں کرتے پھریں》(بخاری)

مومنو ! حیا برائیوں اور محرمات سے مضبوط ڈھال ہے،حیا دل کے زندہ ہونے کی علامت ہے جیسے کہ برائیوں اور منکرات کا ارتکاب دل کے مرنے کی دلیل ہے.

امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “حیا ‘حیاة'(زندگی) سے مشتق ہے جس میں حیا نہیں وہ دنیا میں مردہ ہے،آخرت میں بدبخت ہے،گناہ،قلت حیا اور بے غیرتی کے درمیان ربط ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کی طلب کرتے ہیں.”

لہذا انسان جب بے حیا ہوجائے تو پھر نہ پوچھ کہ وہ کس طرح کی برائیوں کا ارتکاب کرے گا،پھر تعجب نہ کر کہ وہ کس طرح کی حماقتیں کرے گا،بے حیا آدمی کو پرواہ ہی نہیں ہوتی ہے کہ وہ کم ہمتی اور گراوٹ کا شکار ہوچکا ہے،پھر اسے کوئی چیز نہیں ملتی ہے جو اسکے مقام کو واپس دے،اسے کوئی شے نہیں ملتی ہے جو اسے برائیوں سے روک لے،جب وہ بے حیا ہوجائے تو پھر شہوتوں کے حصول کی راہ پر چل نکلتا ہے اسے اللہ تعالی کے حقوق اور بندوں کے حقوق کی پرواہ نہیں ہوتی ہے،وہ بیوقوفیوں اور برائیوں کی پاتال میں گر جاتا ہے ایک برائی سے دوسری اور دوسری سے تیسری وہ دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے اور پھر وہ بدتمیز اور خشک مزاج بنتا ہے،برے افعال و اقوال کا خوگر بنتا ہے.

لیکن جو شخص اللہ تعالی سے حیا کرتا ہے اسے جب کوئی فتنہ اور شہوت بہکائے تو اس کا جواب وہی ہوتا ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کا عزیز مصر کی بیوی کے لئے تھا :
{قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ }
[سورة يوسف:23]
ترجمہ:
(کہا اللہ کی پناہ، وہ تو میرا آقا ہے جس نے مجھے عزت سے رکھا ہے، بے شک ظالم نجات نہیں پاتے)
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا
میں اپنی اُمت میں سے یقینی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت والے دِن اِس حال میں آئیں گے کہ اُن کے ساتھ تہامہ پہاڑ کے برابر نیکیاں ہوں گی ،تو اللہ عزّ و جلّ ان نیکیوں کو (ہوا میں منتشر ہوجانے والا) غُبار بنا (کر غارت ) کردے گا.
تو ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :-
اے اللہ کے رسول، ہمیں اُن لوگوں کی نشانیاں بتائیے، ہمارے لیے اُن لوگوں کا حال بیان فرمایے، تا کہ ایسا نہ ہو کہ ہمیں انہیں جان نہ سکیں اور ان کے ساتھ ہو جائیں
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
وہ لوگ تُم لوگوں کے (دینی) بھائی ہوں گے اور تُم لوگوں کی جِلد (ظاہری پہچان اِسلام ) میں سے ہوں گے ، اور رات کی عبادات میں سے اُسی طرح (حصہ) لیں گے جس طرح تم لوگ لیتے ہو (یعنی تُم لوگوں کی ہی طرح قیام اللیل کیا کریں گے) لیکن اُن کا معاملہ یہ ہوگا کہ جب وہ لوگ الله تعالی کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں کو تنہائی میں پائیں گے تو اُنہیں اِستعمال کریں گے.
(صحیح ابن ماجہ)

شاركنا بتعليق


ستة عشر + 7 =




بدون تعليقات حتى الآن.