حیا ناپید ہونے کے مظاہر

الخميس _31 _ديسمبر _2020AH admin
حیا ناپید ہونے کے مظاہر

♦️کھلا عام گناہ و معصیت کا ارتکاب اور اللہ تعالی کے ڈر کا ختم ہونا ۔

حیا کے ختم ہونے کا تعلق لوگوں کا آپ کے برے احوال سے واقفیت نہیں بلکہ آپ کا لوگوں کے درمیان اپنی برائیوں کی تشہیر کرنا ہے ۔

صحیحین میں حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا :
《میری تمام امت کی بخشش ہوگی سوائے اپنے گناہوں کی خود تشہیر کرنے والوں کے،وہ یہ کہ بندہ رات کو کوئی گناہ کرتا ہے پھر صبح کو اس کا پروردگار اس کے گناہ کی پردہ پوشی کرتا ہے لیکن وہ اسے کہتا ہے اے فلاں میں نے گزشتہ رات ایسے ایسے گناہ کیا اور رات گزاری پروردگار نے تو اسے چھپایا اور ساری رات پردہ پوشی کی لیکن صبح ہوتے ہی اس نے اس گناہ کو ظاہر کردیا جسے اللہ عزوجل نے چھپایا تھا۔》
عرب شاعر کہتا ہے۔
إِذا حُرِمَ المَرءُ الحَياءَ فَإِنَّهُ
بِكُّلِ قَبِيحٍ كانَ مِنهُ جَديرُ

لَهُ قِحَّةٌ في كُلِّ شَيءٍ وَسِرُّهُ
مُباحٌ وَخِدناهُ خَناً وَغُرُورُ

يَرى الشَتمَ مَدحاً والدَناءَةَ رِفعَةً
وَلِلسَمعِ مِنهُ في العِظاتِ نُفُورُ

ترجمہ:
جب انسان حیا سے محروم ہو جائے
تو پھر وہ ہر طرح کی قباحتوں کا مستحق بن جاتا ہے

ہر چیز میں وہ گھٹیا ہوجاتا ہے راز افشاں کرتا ہے پھر بد زبانی اور تکبر اس کا شیوہ بن جاتا ہے۔

پھر وہ گالی کو تعریف سمجھتا ہے حقارت کو اپنی بلندی اور رفعت سمجھتا ہے پھر وہ وعظ و نصیحت سے بھاگتا ہے

امام طبرانی نے الکبیر میں حسن سند کے ساتھ حضرت حذیفہ بن اسید سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص مسلمانوں کو ان کے راستے میں تکلیف پہنچائے گا اس پر ان کی لعنت واجب ہوتی ہے۔کچھ حرکتیں اور عادتیں انسان کیلئے زیبا نہیں ہیں اس کی شان کے خلاف ہیں اللہ تعالی نے اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے دیگر حیوانات سے اسے ممتاز کیا ہے،اسے حیا کا زیور عطا فرمایا ہے تاکہ وہ گندے کاموں سے اجتناب کرے جس میں حیا نہیں گویا اس کی فطرت میں بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔

♦️ فحش کلامی
صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت موجود ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 《اے عائشہ! اللہ تعالی کے نزدیک منزلت کے لحاظ سے بدترین لوگ وہ ہوں گے جنہیں لوگ ان کی فحش کلامی کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں یا دور جاتے ہیں》

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:《مومن لعن طعن اور فحش کلامی و بدکلامی والا نہیں ہوتا ہے》اس حدیث کو ترمذی ابن حبان اور بیھقی نے بیان فرمایا ہے۔

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:《 تم فحش گوئی سے بچو بے شک اللہ تعالی فحش گو اور فحش گوئی کا عمدا ارتکاب کرنے والے کو پسند نہیں کرتا ہے اور ظلم سے بچو بے شک ظلم قیامت کے دن تاریک اور اندھیرا ہوگا،بخل اور حرص سے بچو بے شک بخل و حرص سابقہ اقوام کی بیماری اور خصلت تھی جس کی وجہ سے انہوں نے ایک دوسرے کا خون بہایا اور قطع رحمی کی》
(احمد اور ابن حبان کی روایت)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:فحش کلامی کسی چیز میں ہو تو اسے بدصورت بناتی ہے اور حیا کسی چیز میں ہو تو اسے خوبصورت بناتی ہے۔
(احمد ،ترمذی،ابن ماجہ)

♦️نافرمانی
جب بیٹا اپنے بزرگ والدین کو ان کی اچھائیوں اور پرورش کے بدلے گالم گلوچ کرے ان کا مذاق اڑائے،انہیں تکلیف دے تو پھر اس میں کون سی حیا ہے؟
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
{وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا ۚ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَـرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّـهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْـهَرْهُمَا وَقُلْ لَّـهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا* وَاخْفِضْ لَـهُمَا جَنَاحَ الـذُّلِّ مِنَ الرَّحْـمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَـمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِىْ صَغِيْـرًا}
[سورة الإسراء:23،24]
ترجمہ:
اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو.
اور ان کے سامنے شفقت سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہو اور کہو اے میرے رب جس طرح انہوں نے مجھے بچپن سے پالا ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما۔

بخاری میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ سے روایت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “کبیرہ گناہوں میں سے اللہ تعالی کے ساتھ شرک،والدین کی نافرمانی،ناحق قتل اور جھوٹی قسم ہے۔”

♦️بے حیائی اور بے لباسی
حیا کا تقاضا ہے کہ لوگوں سے اپنی شرمگاہوں اور پردے والی چیزوں کو چھپائیں، امام احمد اور اصحاب سنن نے حضرت بھز بن حکیم سے اس نے اپنے والد اور دادا سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اے اللہ کے نبی ہماری شرمگاہوں کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا:《اپنی شرمگاہ کی حفاظت کریں سوائے اپنی بیوی اور لونڈی کے،میں نے پوچھا اللہ کے رسول جب لوگ اکٹھے رہ رہے ہوں تو پھر ؟ آپ نے فرمایا کہ کوشش کیجئے کہ کسی کے سامنے بے پردگی نہ ہو، میں نے پوچھا اللہ کے رسول جب ہم تنہا اور خلوت میں ہوں تب؟ فرمایا اللہ تعالی سے حیا کرنا لوگوں سے حیا کرنے سے بھی زیادہ حق رکھتا ہے۔》
(امام البانی نے حدیث کو حسن کہا ہے)

شاركنا بتعليق


14 + واحد =




بدون تعليقات حتى الآن.