حیا کی فضیلت

الأربعاء _21 _أكتوبر _2020AH admin
حیا کی فضیلت

ابو مسعود بدری رضی اللہ سے کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگلے پیغمبروں کا کلام جو لوگوں کو ملا اس میں یہ بھی ہے کہ جب شرم ہی نہ رہی تو پھر جو جی چاہے وہ کرے”
(بخاری 6120)
امام خطابی فرماتے ہیں کہ میرے شیخ نے فرمایا :《اگلے پیغمبروں 》کا معانی یہ ہے کہ سابقہ پیغمبروں کی شریعت میں بھی حیا کی اہمیت تھی ہر نبی نے اسکی ترغیب دی ہے اور ہر نبی حیا کے ساتھ بھیجا گیا ہے،ان کی شریعت میں کئی ایک چیزیں منسوخ ہوئیں اور تبدیل ہوئیں لیکن حیا باقی رہی.
(معالم سنن خطابی 4/109)
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی ستر یا ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑی چیز لا الٰہ الا اللہ کا اقرار ہے اوران میں سے ایک چھوٹی سی چیز راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔”
(مسلم 35)
امام خطابی فرماتے ہیں:حیا ایمان کا شعبہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حیا بندے کو معصیت اور گناہ سے روکتی ہے اس لئے یہ ایمان میں سے ہے۔
(معالم سنن 4/312)
حیا فطرت کے فضائل میں سے ہے،اور یہ خیر و فضیلت کا مادہ ہے،اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
《حیا پوری خیر ہے》
ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:حیا خیر کا ذریعہ ہے،حیا برے اخلاق اور بری چیزوں سے روکتی ہے اور اچھے اخلاق پر ابھارتی ہے اس اعتبار سے یہ ایمان کے خصائل میں شمار ہے۔
(جامع العلوم والحکم1/501)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) سے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ وہ اپنے ایک بھائی سے کہہ رہے تھے کہ تم اتنی شرم کیوں کرتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اس کو اس کے حال پر رہنے دو کیونکہ حیاء بھی ایمان ہی کا ایک حصہ ہے۔
(بخاری 6118)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے ویسے حیا کرو جیسے حیا کرنے کا حق ہے۔ہم نے کہا اللہ کے رسول ہم تو حیا کرتے ہیں الحمد للہ،آپ نے فرمایا ایسا نہیں بلکہ حیا کا حق ادا کرو جس نے اللہ تعالیٰ سے کماحقہ حیاء کی تو وہ اپنے ذہن، خیالات اور اعضاء وغیرہ کی حفاظت کرے اور اپنے پیٹ اور روزی کی حفاظت کرے۔ موت اور بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے اور جس نے آخرت کا ارادہ کیا اس نے دنیا کی زندگانی کی زیب و زینت ترک کردی چنانچہ جس نے یہ کام کرلیے تو اس نے اللہ تعالیٰ سے شرمانے اور حیاء کرنے کا حق ادا کردیا.
(اسے ترمذی نے روایت کیا ہے 2458 حدیث عبداللہ مسعود رضی اللہ عنہ سے اور حدیث پر غریب کا حکم لگایا جب کہ امام نووی نے مجموع 5/105 میں اس کی اسناد کو حسن کہا اور امام البانی نے بھی صحیح الترمذی 2458 میں حسن کہا )
ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:اس میں کان آنکھ اور زبان کو محرمات سے بچانا شامل ہے،اسی طرح دل کی حفاظت کہ وہ حرام کاموں پر اصرار نہ کرے،پیٹ کی حفاظت کی حرام کھانا پینا اس میں داخل نہ کرے،سب سے زیادہ جن دو چیزوں کو حرام کاری سے بچانا ہے وہ زبان اور شرمگاہ ہے۔
(جامع العلوم والحکم ص 464)
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ《 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو برہنہ نہاتے ہوئے دیکھا آپ منبر پر چڑھے اللہ تعالی کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا اللہ تعالی حلیم حیا والا اور پردہ پوشی کرنے والا ہے حیا اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے تم میں سے کوئی جب نہائے تو پردہ پوشی کرے》
(ابو داود 4012،نسائی406 امام نووی نے خلاصہ 1/204 میں اسے صحیح کہا ہے)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:《 بے حیائی جس چیز میں ہوگی وہ اسے بدبصورت بنا دے گی اور حیا جس چیز میں ہوگی وہ اسے خوبصورت بنا دے گی》
(ترمذی 1974،ابن ماجہ 4185،امام البانی نے ترغیب و ترھیب 2635 میں اس پر صحیح کا حکم لگایا ہے)

شاركنا بتعليق


17 − 4 =




بدون تعليقات حتى الآن.