رضا کی روشن مثالیں

الثلاثاء _8 _سبتمبر _2020AH admin
رضا کی روشن مثالیں

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ جب نابینا ہوئے تو یہ شعر پڑھتے تھے 

ترجمہ :اگر اللہ نے میری آنکھوں کی بینائی لے لی ہے تو میری زبان اور کان کا نور تو ابھی باقی ہے،میرا دل  دھڑکتا ہے اور عقل سالم ہے،میرے منہ میں شمشیر کی مانند زبان ہے.

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مکہ پہنچے وہ نابینا ہوچکے تھے لوگ بھاگ کر ان کے پاس آئے ہر ایک ان سے دعا کے لئے کہتا تھا چونکہ وہ مستجاب الدعوات تھے،عبداللہ بن سائب کہتے ہیں میں بھی ان کے پاس آیا تب میں چھوٹی عمر کا تھا،میں نے اپنا تعرف کرایا انہوں نے مجھے پہچان لیا اور کہا تو اہل مکہ کا قاری ہے نا؟ میں نے کہا جی ہاں،پھر میں نے ان سے کہا اے چاچا آپ سب لوگوں کے لئے دعا کرتے ہیں اپنے لئے دعا کرتے تو آنکھوں کی بینائی واپس آتی،وہ مسکرائے اور فرمانے لگے:اے بیٹے میرے نزدیک اللہ تعالی کا فیصلہ اپنی بینائی سے زیادہ محبوب ہے.

(مدارج السالکین:2/227)

امام ابن قیم رحمہ اللہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ “جب انہیں قلعے میں قید کر دیا گیا ،پس دیوار زنداں انہوں نے جب دیوار زنداں کو دیکھ لیا تو بے ساختہ یہ آیت کریمہ پڑھی 

{فَضُرِبَ بَيْنَـهُـمْ بِسُوْرٍ لَّـهٝ بَابٌ ؕ بَاطِنُهٝ فِيْهِ الرَّحْـمَةُ وَظَاهِرُهٝ مِنْ قِـبَلِـهِ الْعَذَابُ}سورة الحديد: (13)

ترجمہ :

(پس ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی، جس میں ایک دروازہ ہوگا اس کے اندر تو رحمت ہوگی اور اس کے باہر کی طرف عذاب ہوگا۔)

کلفتوں،اذیتوں اور کٹھنائیوں کے باوجود بخدا میں نے کسی کو ان سے بہتر زندگی گزارتے نہیں دیکھا،جیل کی وحشتیں تھیں،حبس تھا لیکن وہ کبیدہ خاطر نہ ہوئے،مضبوط اعصاب اور بڑے دل کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے،شگفتگی اور تازگی ان کے چہرے سے ٹپکتی،ہم پر جب کبھی مشکل وقت آتا،زمین ہم پر تنگ کر دی جاتی ہم ان کے پاس چلے جاتے ہم انہیں دیکھتے اور سنتے،ہمارا خوف اور ڈر دور ہوجاتا،ہم کشادہ دل،یقین،طمانیت اور اک نئی توانائی کے ساتھ لوٹ جاتے،اللہ تعالی پاک ہے کہ جس نے اپنے کچھ چنیدہ بندوں کو اپنی ملاقات سے پہلے ہی جنتوں کے نظارے کرائے،ان کے لئے عمل کے دروازے کھول دیے،پس ان دریچوں سے بہشت کی باد نسیم،خوشبوئیں،تازہ ہوائیں ان تک بہم پہنچتی رہی جس سے ان کے قوی اور مضبوط ہوئے،ان کی طلب میں اور زیادہ شدت آئی،جب بندہ یقین کی منزلوں کو چھو لیتا ہے شک و شبہ کافور اور دور ہوجاتے ہیں،دمشق کے واعظ احمد بن عاصم انطاکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں”تھوڑا سا یقین بھی پورا شک کو دل سے  نکال باہر کرتا ہے” نزهة الفضلاء 955

یہی وجہ تھی کہ زنداں میں حبس اور اذیتوں کے باوجود آپ ہمیشہ سعادت و رضا میں ہوتے تھے،بے شک اخروی جنت کے علاوہ دنیا میں بھی اک جنت ہے،ایک بار مجھ سے کہنے لگے،میرے دشمن میرا کیا بگاڑیں گے؟ میری جنت اور میرا باغیچہ تو میرے سینے میں ہے،جہاں بھی جاوں وہ میرے ساتھ ہے،مجھ سے الگ نہیں ہوتا ہے،قید میرے لئے خلوت ہے،قتل میرے لئے شہادت ہے،ملک بدری میرے لئے سیاحت ہے”

شاركنا بتعليق


إحدى عشر + 7 =




بدون تعليقات حتى الآن.