زکریا اور یحیی علیھما السلام بسلسلہ قرآنی قصص اور فوائد سلوکیہ

الجمعة _19 _فبراير _2021AH admin
زکریا اور یحیی علیھما السلام بسلسلہ قرآنی قصص اور فوائد سلوکیہ

سولہواں درس:
یہ دونوں برگزیدہ پیغمبر ایک ہی خانوادے آل عمران سے تعلق رکھتے تھے،حضرت زکریا علیہ السلام کو اللہ تعالی نے لخت جگر سے نوازا اور اس کا نام یحیی تھا اور اس کی ماں مریم بنت عمران کی بہن تھیں،چنانچہ حضرت یحیی اور حضرت عیسی علیھما السلام آپس میں خالہ زاد بھائی تھے،ان دونوں کی مائیں بہنیں تھیں،حدیث إسراء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے عیسی اور یحیی کو دیکھا جو کہ خالہ زاد ہیں۔(صحیحین) زکریا علیہ السلام کا تذکرہ قرآن مجید میں سات بار ہوا ہے جب کہ یحیی علیہ السلام کا پانچ بار :
{ذِكْرُ رَحْـمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٝ زَكَرِيَّا○اِذْ نَادٰى رَبَّهٝ نِدَآءً خَفِيًّا○قَالَ رَبِّ اِنِّـىْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّىْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَيْبًا وَّلَمْ اَكُنْ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِيًّا○وَاِنِّـىْ خِفْتُ الْمَوَالِىَ مِنْ وَّّرَآئِىْ وَكَانَتِ امْرَاَتِىْ عَاقِرًا فَهَبْ لِىْ مِنْ لَّـدُنْكَ وَلِيًّا○يَرِثُنِىْ وَيَرِثُ مِنْ اٰلِ يَعْقُوْبَ ۖ وَاجْعَلْـهُ رَبِّ رَضِيًّا}
[ سورة مريم:2,3,4,5,6]
ترجمہ
یہ تیرے رب کی مہربانی کا ذکر ہے جو اس کے بندے زکریا پر ہوئی۔جب اس نے اپنے رب کو خفیہ آواز سے پکارا۔کہا اے میرے رب! میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور سر میں بڑھاپا چمکنے لگا ہے اور میرے رب! تجھ سے مانگ کر میں کبھی محروم نہیں ہوا۔اور بے شک میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو اپنے ہاں سے ایک وارث عطا کر۔جو میرا اور یعقوب کے خاندان کا بھی وارث ہو، اور میرے رب اسے پسندیدہ بنا۔
(نِدَآءً خَفِيًّا) خفیہ آواز اخلاص اور قبولیت کے زیادہ قریب ہوتی ہے۔
(خِفْتُ الْمَوَالِىَ) اس سے مراد کچھ مفسرین نے کہا بنی اسرائیل کے بڑے ہیں،کچھ نے کہا کہ ان کے بعد والے ہیں چونکہ ان میں اہل خیر اور نیک لوگ نہیں رہ گئے تھے۔
پس اس وجہ سے زکریا علیہ السلام نے وارث کیلئے دعا کی یہاں وراثت سے مراد مال و دولت نہیں بلکہ یہ وراثت نبوت کی ہے جیسے کہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : 《ہم انبیاء کی جماعت ہمارے کوئی وارث نہیں ہوتے ہیں》اسی طرح زکریا علیہ السلام صاحب مال و دولت نہیں تھے بلکہ وہ نجار اور بڑھی تھے(مسلم) اپنے ہاتھ کی کمائی سے نظام چلاتے۔
چنانچہ اللہ تعالی کی طرف سے اعلان ہوا :
{يَا زَكَرِيَّـآ اِنَّا نُـبَشِّرُكَ بِغُلَامِ  ِۨ اسْمُهٝ يَحْيٰىۙ لَمْ نَجْعَلْ لَّـهٝ مِنْ قَبْلُ سَـمِيًّا○قَالَ رَبِّ اَنّـٰى يَكُـوْنُ لِىْ غُلَامٌ وَّكَانَتِ امْرَاَتِىْ عَاقِرًا وَّقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَـرِ عِتِيًّا○قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّـىٓ اٰيَةً ۚ قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا○فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓى اِلَيْـهِـمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْـرَةً وَّعَشِيًّا}
[سورة مريم:7،8،9،10،11]
ترجمہ
اے زکریا بے شک ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰی ہوگا، اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی پیدا نہیں کیا۔کہا اے میرے رب میرے لیے لڑکا کہاں سے ہوگا حالانکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے میں انتہائی درجہ کو پہنچ گیا ہوں۔کہا ایسا ہی ہوگا، تیرے رب نے کہا ہے وہ مجھ پر آسان ہے اور میں نے تجھے اس سے پہلے پیدا کیا حالانکہ تو کوئی چیز نہ تھا۔کہا اے میرے رب میرے لیے کوئی نشانی مقرر کر، کہا تیری نشانی یہ ہے کہ تو تین رات تک مسلسل لوگوں سے بات نہیں کر سکے گا۔پھر حجرہ سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے اور انہیں اشارہ سے کہا کہ تم صبح و شام خدا کی تسبیح کیا کرو۔
حضرت زکریا علیہ السلام نے حیرت کا اظہار کیا جب کہ دعا بھی انہوں نے ہی کی تھی اور وہ جانتے بھی تھے کہ اللہ تعالی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے،پس انہوں نے کوئی نشانی مانگی اللہ تعالی نے نشانی بتا دی،وہ صاحب صحت ہونے کے باوجود بھی بات نہیں کرسکتے سوائے زکر کے چونکہ زکر الہی میں وہ قوت و طاقت ہوتی ہے،محراب وہ مخصوص جگہ تھی جہاں وہ بیٹھے یہ گھر میں بھی ہوسکتی ہے اور مسجد میں بھی.
حضرت یحیی علیہ السلام کی ولادت
{فَنَادَتْهُ الْمَلَآئِكَـةُ وَهُوَ قَآئِمٌ يُّصَلِّىْ فِى الْمِحْرَابِ اَنَّ اللّـٰهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيٰى مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّـٰهِ وَسَيِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِيْنَ}
[آل عمران :39]
ترجمہ
پھر فرشتوں نے اس کو آواز دی جب وہ حجرے کے اندر نماز میں کھڑے تھے کہ بے شک اللہ تجھ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کے ایک حکم کی گواہی دے گا اور سردار ہوگا اور عورت کے پاس نہ جائے گا اور صالحین میں سے نبی ہوگا
قرآن مزید نقشہ کھینچتا ہے۔
{يَا يَحْيٰى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَّاٰتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا○وَحَنَانًا مِّنْ لَّـدُنَّا وَزَكَاةً ۖ وَكَانَ تَقِيًّا ○وَبَرًّا بِوَالِـدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا○وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِـدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا}
[سورة مريم:12,13,14,15]
ترجمہ
اے یحیٰی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ، اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا کی۔اور اسے اپنے ہاں سے رحم دلی اور پاکیزگی عنایت کی، اور وہ پرہیزگار تھا۔اور اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا تھا اور سرکش نافرمان نہ تھا۔اور اس پر سلام ہو جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن وہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا۔
یعنی اللہ تعالی نے انہیں بچپن میں ہی فہم و فراست،علم و سنجیدگی عطا فرمائی،رحم دلی اور پاکیزگی عنایت فرمائی جس کی وجہ سے اس کا ظاہر و باطن پاک ہوگیا،اس کی عقل و دل کو آفات اور گناہوں سے پاک صاف کر دیا،اخلاق حسنہ سے بھر دیا گیا،وہ اپنے والدین کا فرماں بردار تھا ان میں دو صفات جمع ہوگئیں اللہ کی بندگی اور مخلوق کے حقوق کی ادائیگی،اس پر سلامتی ہو ۔۔۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ تین مقامات سب سے مشکل ہوتے ہیں،چونکہ ایک مقام میں انس و الفت کے بعد دوسری جگہ منتقل ہونا بہت ناگوار اور کٹھن ہوتا ہے لیکن اللہ تعالی نے حضرت یحیی علیہ کے لئے تینوں مقامات سلامتی والے بنا دیے۔(سَيِّدًا وَّحَصُوْرًا ) سیدا سے مراد نبوت ہے جب کہ حصودا سے مراد عفت و عصمت کی حفاظت ہے،کچھ نے حصورا کا معنی عورتوں کی طلب نہ ہونا کیا ہے یہ کمزور اور ضعیف قول ہے چونکہ مردوں میں یہ صفت مدح نہیں ہے۔
{فَاسْتَجَبْنَا لَـهٝ وَوَهَبْنَا لَـهٝ يَحْيٰى وَاَصْلَحْنَا لَـهٝ زَوْجَهٝ ۚ اِنَّـهُـمْ كَانُـوْا يُسَارِعُوْنَ فِى الْخَيْـرَاتِ وَيَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا ۖ وَكَانُـوْا لَنَا خَاشِعِيْنَ}
[سورة الأنبياء:90]
ترجمہ
پھر ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحیٰی عطا کیا اور اس کے لیے اس کی بیوی کو درست کر دیا، بے شک یہ لوگ نیک کاموں میں دوڑ پڑتے تھے اور ہمیں امید اور ڈر سے پکارا کرتے تھے، اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے۔
بیوی کو درست کرنے سے مراد یہ ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے اسے حیض نہیں آتا تھا چنانچہ اسے حیض آنا شروع ہوا ،دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے یہ بھی ہیں کہ اللہ تعالی کو امید اور ڈر کے ساتھ پکارا جائے اور دعا کی عدم قبولیت کے اسباب میں سے گناہوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالنا،سرعام گناہوں کا ارتکاب،لقمہ حرام کھانا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
آدمی لمبا سفر کرتا ہے،سفر کی وجہ سے اس کے بال پراگندہ ہوتے ہیں وہ ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اے میرے رب !
اس کا کھانا حرام
اس کا پینا حرام
اس کا لباس حرام کا
اسکی نشوونما حرام میں
کیسے اس کی دعا قبول ہوگی؟
(مسلم )
حضرت یحیی اور عیسی علیھما السلام کی دعوت
دونوں پیغمبر ہم عصر اور ایک ہی زمانے میں تھے،دونوں نے بھرپور دعوت کا کام کیا یہاں تک کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھایا گیا جب کہ حضرت یحیی علیہ السلام کو قتل کر دیا گیا،ان کے قتل کرنے کی وجہ یہ بنی کہ وقت کے بادشاہ کو اپنی کسی محرم عورت سے محبت ہوگئی وہ عورت بھی اسے چاہتی تھی،بادشاہ نے حضرت یحیی علیہ السلام سے فتوی طلب کیا آپ نے سختی سے منع کر دیا ،یہ بات اس عورت پر ناگوار گزری اس نے بادشاہ سے کہا کہ مجھے حق مہر میں یحیی کا سر چاہئے،بادشاہ نے کہا یہ نہیں ہوسکتا ہے آپ دوسری جو چیز مانگو گی میں دوں گا لیکن وہ بدکار عورت اسی پر اصرار کرتی رہی چنانچہ حضرت یحیی علیہ السلام کو شہید کرکے ان کا سر پیش کیا گیا،اسی حضرت حضرت زکریا علیہ السلام کو بھی قتل کر دیا گیا،انبیاء کرام کو قتل کرنا بنی اسرائیل کا شیوہ تھا.
دروس اور عبرتیں
بنی اسرائیل کی شہرت تکبر اور عناد بنی،حالانکہ ان کے پاس انبیاء کرام کھلے معجزے لیکر آئے بنی اسرائیل نے جیتی آنکھوں سے معجزات دیکھے لیکن پھر بھی انبیاء کرام کا قتل کیا،ثابت ہوا کہ تکبر و غرور گمراہی اور تباہی کا باعث ہے۔
اسی طرح تکبر و غرور انسان کو شریعت کی مخالفت،اعتراض اور عدم قبولیت پر ابھارتا ہے۔
{فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُـوْنَ حَتّـٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَـهُـمْ ثُـمَّ لَا يَجِدُوْا فِىٓ اَنْفُسِهِـمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا}
[سورة النساء 65]
ترجمہ
سو تیرے رب کی قسم ہے یہ کبھی مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ اپنے اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں پھر تیرے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور خوشی سے قبول کریں۔
اسی طرح معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم اور جدید میں کس طرح لوگوں نے درختوں،پتھروں اور جانوروں کی عبادت کی،حتی کہ بندروں،چوہوں،شرم گاہوں تک کی پرستش کی حالانکہ ان میں بظاہر عقل مند لوگ بھی ہیں خاص کر عصر حاضر کے مشرکوں میں دانشورز،فلاسفرز،ڈاکٹرز اور سائنسدان بھی ہیں لیکن ان کی عقلوں پر پردے پڑے ہیں ایسی مخلوقات کے آگے وہ جھکتے ہیں جو نفع و نقصان کے مالک نہیں،خود کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی ہیں۔
{فَلَمَّا زَاغُوٓا اَزَاغَ اللّـٰهُ قُلُوْبَـهُـمْ ۚ }
[سورة الصف:5]
ترجمہ
پس جب وہ پھر گئے تو اللہ نے ان کے دل پھیر دیے۔
{وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنَاهُـمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰى عَلَى الْـهُدٰى فَاَخَذَتْهُـمْ صَاعِقَةُ الْعَذَابِ الْـهُوْنِ بِمَا كَانُـوْا يَكْسِبُوْنَ }
[سورة فصلت:17]
ترجمہ
اور وہ جو قوم ثمود تھی ہم نے انہیں ہدایت کی سو انہوں نے گمراہی کو بمقابلہ ہدایت کے پسند کیا پھر انہیں کڑاکے کے ذلیل کرنے والے عذاب نے آ لیا ان کے اعمال کے سبب سے۔
امام ابنقیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تمام عارفین اس بات پر متفق ہیں کہ توفیق کا چھین جانا یہ ہے کہ اللہ تعالی انسان کو اس کے نفس کے سپرد کر دے۔
هربوا من الرِّقِّ الذي خُلِقُوا له
فبلوا برقِّ النِّفس والشَّيطان
اس غلامی سے بھاگ گئے جس کی وجہ سے وہ پیدا ہوئے تھے(یعنی رب کی بندگی )
نتیجتا نفس اور شیطان کی غلامی میں چلے گئے ۔۔

شاركنا بتعليق


1 + إحدى عشر =




بدون تعليقات حتى الآن.