سچ راہ نجات

الثلاثاء _9 _فبراير _2021AH admin
سچ راہ نجات

سچ راہ نجات ہے،جھوٹ ہلاکتوں کی طرف دھکیلتا ہے،غزوہ تبوک کے موقعے پر حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا غزوہ سے پیچھے رہ جانا اور پھر پیچھے رہنے پر جھوٹ اور عذر لنگ کا سہارا لینے کی بجائے سچ بولنے کا واقعہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے.
امام بخاری رحمہ اللہ نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ حدیث اور واقعہ کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے:
“میں ہر غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا سوائے غزوہ تبوک کے…حدیث
آگے فرماتے ہیں:
جب مجھے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس تشریف لا رہے ہیں تو مجھے فکر دامن گیر ہوئی اور میرا ذہن کوئی ایسا جھوٹا بہانہ تلاش کرنے لگا جس سے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے بچ سکوں اپنے گھر کے ہر عقلمند آدمی سے اس کے متعلق میں نے مشورہ لیا لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے بالکل قریب
آچکے ہیں تو تمام غلط خیالات میرے ذہن سے نکل گئے اور مجھے یقین ہو گیا کہ اس معاملہ میں جھوٹ بول کر میں اپنے کو کسی طرح محفوظ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ میں نے سچی بات کہنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ صبح کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ جب آپ کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو یہ آپ کی عادت تھی کہ پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں کے ساتھ مجلس میں بیٹھتے۔ جب آپ اس عمل سے فارغ ہو چکے تو آپ کی خدمت میں لوگ آنے لگے جو غزوہ میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور قسم کھا کھا کر اپنے عذر بیان کرنے لگے۔ ایسے لوگوں کی تعداد اسی کے قریب تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہر کو قبول فرما لیا، ان سے عہد لیا۔ ان کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی اور ان کے باطن کو اللہ کے سپرد کیا۔ اس کے بعد میں حاضر ہوا۔ میں نے سلام کیا تو آپ مسکرائے۔ آپ کی مسکراہٹ میں خفگی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آؤ، میں چند قدم چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تم غزوہ میں کیوں شریک نہیں ہوئے۔ کیا تم نے کوئی سواری نہیں خریدی تھی؟ میں نے عرض کیا، میرے پاس سواری موجود تھی۔ اللہ کی قسم! اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی دنیادار شخص کے سامنے آج بیٹھا ہوتا تو کوئی نہ کوئی عذر گھڑ کر اس کی خفگی سے بچ سکتا تھا، مجھے خوبصورتی کے ساتھ گفتگو کا سلیقہ معلوم ہے۔ لیکن اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ اگر آج میں آپ کے سامنے کوئی جھوٹا عذر بیان کر کے آپ کو راضی کر لوں تو بہت جلد اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے گا۔ اس کے بجائے اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی بات بیان کر دوں تو یقیناً آپ کو میری طرف سے خفگی ہو گی لیکن اللہ سے مجھے معافی کی پوری امید ہے۔ نہیں، اللہ کی قسم! مجھے کوئی عذر نہیں تھا، اللہ کی قسم اس وقت سے پہلے کبھی میں اتنا فارغ البال نہیں تھا اور پھر بھی میں آپ کے ساتھ شریک نہیں ہو سکا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سچی بات بتا دی۔ اچھا اب جاؤ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں خود کوئی فیصلہ کر دے۔حدیث نبوی
پس نتیجہ اور انجام یہ ہوا کہ اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائی ا،حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے دوسرے دو ساتھیوں کے متعلق قرآن مجید میں آیتیں نازل کیا جو قیامت تک تلاوت ہوتی رہیں گی.

شاركنا بتعليق


أربعة × واحد =




بدون تعليقات حتى الآن.