سیرتِ نبوی سے عقیدے کا سبق

الجمعة _26 _سبتمبر _2025AH admin
سیرتِ نبوی سے عقیدے کا سبق

سینۂ مبارک شق ہونے کا معجزہ:

بسم اللہ الرحمن الرحیم، تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔
یہ سیرتِ نبوی سے عقیدے کے دروس میں پہلا درس ہے۔

سینۂ مبارک شق ہونے کا معجزہ:

نبی کریم ﷺ کا سینۂ مبارک دو مرتبہ شق کیا گیا اور دھویا گیا:

پہلی مرتبہ: جب آپ ﷺ چار سال کے بچے تھے اور بنی سعد کی بادیہ میں کھیل رہے تھے۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے:

> رسول اللہ ﷺ کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے جب کہ آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔
انہوں نے آپ ﷺ کو زمین پر لٹایا اور آپ کا سینہ مبارک چاک کیا۔
پھر دل کو نکالا اور اس میں سے ایک لوتھڑا نکال کر کہا: یہ تمہارے حصے کا شیطانی اثر ہے۔
پھر اسے سونے کے طشت میں زمزم کے پانی سے دھویا، پھر سینے میں واپس رکھا۔
بچے دوڑتے ہوئے آپ کی دایہ کے پاس گئے اور کہا: محمد قتل ہو گئے!
انس رضي الله عنه کہتے ہیں: میں نے اپنے بچپن میں آپ کے سینے پر ٹانکے کا نشان دیکھا۔ (صحیح مسلم)

یہ واقعہ اس بات کی ابتدائی علامت تھا کہ اللہ سبحانه وتعالیٰ نے آپ ﷺ کو گناہوں اور شرک سے محفوظ رکھنا تھا، تاکہ آپ کے دل میں صرف توحید ہی جگہ پائے۔
چنانچہ بچپن ہی سے آپ ﷺ نے نہ کبھی گناہ کیا، نہ کبھی بت کو سجدہ کیا حالانکہ یہ عمل آپ کی قوم میں عام تھا۔

دوسری مرتبہ: آپ ﷺ کا سینہ شق ہونا معراج کی رات پیش آیا۔
صحیحین میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

> “جب میں مکہ میں اپنے گھر میں تھا تو اچانک گھر کی چھت کھول دی گئی، جبرائیل نازل ہوئے اور میرا سینہ مبارک چاک کیا۔
پھر زمزم کے پانی سے دھویا۔
پھر ایک سونے کے طشت میں حکمت اور ایمان بھرا ہوا لائے اور اسے میرے سینے میں انڈیل دیا۔
پھر اسے بند کر دیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر آسمانوں کی طرف لے گئے۔”
(متفق علیہ)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى فرماتے ہیں: پہلا شق اس لیے ہوا تاکہ وہ لوتھڑا نکالا جائے جس کے بارے میں کہا گیا: یہ تمہارے حصے کا شیطانی اثر ہے۔
اور دوسرا شق اس لیے ہوا تاکہ آپ ﷺ معراج کی رات وحی کے نزول کے لیے تیار ہو جائیں۔

اے بھائیو! یہ واقعہ صحیح اور متواتر سندوں سے ہم تک پہنچا ہے، جسے جھٹلانا ممکن نہیں۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی سچائی کی دلیل ہے، کیونکہ یہ اللہ سبحانه وتعالى کی خصوصی حفاظت اور تیاری کا حصہ تھا۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ شق سینہ انسانی عمل نہیں تھا کہ عقل کو اس پر حاکم بنایا جائے، بلکہ یہ اللہ سبحانه و تعالیٰ کی قدرت سے فرشتوں کے ذریعے ہوا۔ اللہ سبحانه وتعالى ہر چیز پر قادر ہے۔

معجزات اور خرقِ عادت پر عقل کو معیار بنانا جائز نہیں، جب کہ وہ صحیح سند سے ثابت ہوں۔
قدرتی قوانین اللہ جل جلاله ہی کے بنائے ہوئے ہیں، وہ جب چاہے انہیں بدل سکتا ہے۔
ہم سب ایمان رکھتے ہیں کہ آگ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نہیں جلایا، حالانکہ کفار کی عقلیں یقین رکھتی تھیں کہ وہ جل جائیں گے۔ لیکن اللہ سبحانه وتعالى نے فرمایا:
> {قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ}۔
ترجمه :
ہم نے کہا اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈک اور سلامتی بن جا۔
جب آج کا جدید طب انسان کے دل کو نکال کر دوسرا دل لگا دیتا ہے یا مصنوعی دل لگا کر بھی انسان زندہ رہتا ہے، تو پھر اللہ کی قدرت پر شک کیسا کہ وہ نبی ﷺ کا سینہ چاک کر کے اسے دوبارہ جوڑ دے؟

حافظ ابن حجر رحمہ الله تعالى کہتے ہیں: ایسے غیر معمولی واقعات کو حقیقت کے ساتھ قبول کرنا واجب ہے، کیونکہ اللہ سبحانه وتعالیٰ کی قدرت کے لیے کوئی چیز ناممکن نہیں۔

اللہ سبحانه وتعالیٰ مجھے اور آپ کو نفع بخش علم اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے۔

والسلام علیکم ورحمة الله وبرکاته۔

شاركنا بتعليق


4 × ثلاثة =




بدون تعليقات حتى الآن.