شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے رازی کی اس تفسیر سے متعلق پوچھا گیا جو کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق کرتے ہیں {ولتصنع على عيني} اور {واصنع الفلك بأعيننا} اس کا ظاہر یہ تقاضا کرتا ہے کہ موسی اس آنکھ میں ٹھرے اور اس سے جڑے موجود تھے اور اللہ کا یہ فرمان تقاضا کرتا ہے کہ اس صنعت کو بنانے کا آلہ آنکھ ہے.

الجمعة _27 _مايو _2022AH admin
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے رازی کی اس تفسیر سے متعلق پوچھا گیا جو کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق کرتے ہیں {ولتصنع على عيني} اور {واصنع الفلك بأعيننا} اس کا ظاہر یہ تقاضا کرتا ہے کہ موسی اس آنکھ میں ٹھرے اور اس سے جڑے موجود تھے اور اللہ کا یہ فرمان تقاضا کرتا ہے کہ اس صنعت کو بنانے کا آلہ آنکھ ہے.

شیخ رحمہ اللہ نے رازی کے اس قول کا جواب دیتے ہوئے کہا
یہ دعویٰ کرنا کہ ان دو آیتوں کا ظاہر یہ تقاضا کرتا ہے یہ ایک باطل دعویٰ ہے اس بات کا دعوٰی کہ کلام کا ظاہر یہ تقاضا کرتا ہے یہ معنی باطل ہے یہ کوئی عقل مند شخص نہیں کہہ سکتا جیسا کہ جس کا وہ اعتراف کرتے ہیں جب اسے کوئی عقل مند شخص نہیں کہہ سکتا تو پھر یہ کیسے کوئی مومن کہہ سکتا ہے بلکہ کوئی عقل مند کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ کلام اللہ کا ظاہر ہے. جس نے اس بات کا جواز پیش کیا کہ یہ کلام اللہ کا ظاہر ہے اس نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور کلام میں عیب نکالا جب اس نے مدلول کو ایک باطل معنی پہنا دیا کوئی عقل مند ایسا نہیں کہہ سکتا ہے جب یہ عذر پیش کیا جائے کہ یہ معنی اس کلام کے لیے باطل ہے تو پھر اس کلام کے لیے کوئی اور معنی ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ موسی علیہ السلام کی تربیت اللہ تعالیٰ کی خاص نگہداشت میں ہوئی اللہ تعالیٰ اپنی آنکھ سے اسے دیکھتے جیسے کہ کہا جاتا ہے
یہ کام میری آنکھوں کے سامنے ہوا یعنی میں اسے مشاہدہ کر رہا تھا آنکھ سے دیکھ رہا تھا.
دوسری آیت میں نوح علیہ السلام کی کشتی کو بنانا اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں بنانے کا مطلب اللہ تعالیٰ اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے تھے اسکی بناوٹ کو اللہ تعالیٰ درست فرما رہے تھے اللہ تعالیٰ کی مدد تھی، جیسے کہا جاتا ہے کہ یہ میری آنکھوں میں ہوا یعنی میرے سامنے میری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے جب کہ بنانے کا آلہ ہاتھ ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ میں نے اپنی آنکھ سے لکھا یعنی میں نے اسے دیکھتے ہوئے لکھا جب کہ کتابت ہاتھ اور آلہ سے ہوتی ہے اور یہ تعبیر مشہور عربی تعبیر ہے،قرآن مجید واضح عربی زبان میں نازل ہوا ہے، ہاں اگر کوئی شرعی حقیقت اور تصور معنی کو کسی دوسری معنی کی طرف منتقل کرے جیسے نماز اور روزہ کی اصطلاحات ہیں، پس حقیقی معنوں پر محمول کیا جائے گا، سوال کرنے والے نے یہ کلمات جس کتاب تاسیس سے نقل کیے ہیں اسکی شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے نقض کی ہے کاش کہ سائل اس نقض کا کوئی نسخہ حاصل کرتے.
مجموع فتاویٰ و رسائل العثیمین
(1/153)

شاركنا بتعليق


14 − 7 =




بدون تعليقات حتى الآن.