شیطان سے غافل انسان

الجمعة _18 _يونيو _2021AH admin
شیطان سے غافل انسان

یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ شیطان اس کے خلاف گھات لگائے بیٹھا ہے،وہ اسے فتنے میں مبتلا کرنا چاہتا ہے،اس کے دل میں وسوسہ ڈالنا چاہتا ہے اور اسے ہر برائی میں ملوث کرنا چاہتا ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
{قَالَ فَبِمَآ اَغْوَيْتَنِىْ لَاَقْعُدَنَّ لَـهُـمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْـمَ○ثُـمَّ لَاٰتِيَنَّـهُـمْ مِّنْ بَيْنِ اَيْدِيْـهِـمْ وَمِنْ خَلْفِهِـمْ وَعَنْ اَيْمَانِـهِـمْ وَعَنْ شَـمَآئِلِهِـمْ ۖ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُـمْ شَاكِـرِيْنَ}
[الأعراف:16,17]
ترجمہ
(کہا جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی ضرور ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔
پھر ان کے پاس ان کے آگے ان کے پیچھے ان کے دائیں اور ان کے بائیں سے آؤں گا، اور تو اکثر کو ان میں سے شکرگزار نہیں پائے گا۔)
اللہ تعالی سے شیطان لعین نے مہلت ہی اس لئے مانگی کہ وہ انسان کو گمراہ کرسکے،اسے صراط مستقیم سے روک سکے،چونکہ اللہ تعالی کی مشیت اور حکمت کے تقاضوں کے تحت یہ دنیا امتحان گاہ ہے یہاں آزمائش و ابتلا مقصود ہے لہذا شیطان یہاں مختلف حیلے اور مکر و فریب کے ذریعے انسان کو گمراہ کرے گا پس شیطان کی جال میں آنے والا نفسانی خواہشات اور شہوات کا غلام بن جائے گا وہ شرک و بدعات اور خرافات و ظلمات میں پڑ جائے گا،چونکہ یہ جنگ انسان اور شیطان کے درمیان ہے اور انسان کا اپنے نفس سے بھی جنگ ہے،جس نے شیطان کی پیروی کی وہ گمراہ ہوا اور جس نے شیطان کی نافرمانی کی وہ کامیاب ہوا اس نے ہدایات پایا اس نے اپنے اور شیطان کے درمیان رکاوٹ اور دیوار کھڑی کر دی اور وہ محفوظ ہوا ،گناہ چھوٹا ہو کہ بڑا شیطان نفس کو اس کی طرف راغب کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
《تم میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے مگر اسکے ساتھ ایک جنوں میں سے ہم نشین لگایا گیا ہے تو صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول کیا آپ کے ساتھ بھی؟ تو آپ نے فرمایا میرے ساتھ بھی لیکن یہ اللہ تعالی نے اس پر میری مدد کی ہے تو وہ مسلمان ہوگیا ہے اور مجھے صرف نیکی کا حکم کرتا ہے۔》مسلم شریف
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم نشین مسلمان ہوا ہے،جس طرح اللہ تعالی نے اپنی حکمت کے تحت ایک ہم نشین ہر انسان کے ساتھ جنوں میں سے لگایا ہے جو اسے گمراہ کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالی نے اپنی رحمت سے ایک ہم نشین ہر انسان کے ساتھ فرشتوں میں سے بھی مقرر کیا ہے وہ اسے خیر اور بھلائی کی طرف ترغیب دلاتا ہے۔
عزیزان من !
مقصود یہ ہے کہ ہم جان لیں کہ شیطان ہمارے تمام راستوں پر گھات لگائے بیٹھا ہے وہ تمام بھلائی کے راستوں میں بیٹھا ہے وہ اسلام،جہاد اور ہجرت کی راہوں میں بیٹھا ہے تاکہ ہمیں راستے سے بھٹکائیں،وہ ہمیں شکوک و شبہات،وسوسوں اور خطرات میں ڈال کر گمراہ کرنا چاہتا ہے،وہ مسلمانوں کے درمیان جھگڑا اور فساد چاہتا ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا :
{وَقُلْ لِّعِبَادِىْ يَقُوْلُوا الَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ ۚ اِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَـهُـمْ ۚ اِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا}
[الإسراء:53]
ترجمہ :
(اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہی بات کہیں جو بہتر ہو، بے شک شیطان آپس میں لڑا دیتا ہے، بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔)
پس شیطان کے حملوں اور فتنوں سے خبردار رہیں،لازم ہے کہ شیطان کے مکر و فریب اور اس کے وار سے آگاہ رہیں ہاں مگر اس سے بھی ضروری ہے کہ ہم اسے دشمن مان لیں اسکی پیروی نہ کریں،اس سے غافل نہ ہوجائیں،اللہ تعالی کی طرف پلٹ جائیں،رجوع کریں،شیطان مردود سے اللہ تعالی کی پناہ میں آ جائیں،اطاعت،ذکر اور دعا کے ذریعے اللہ تعالی کی طرف لوٹ آئیں،شیطان سے دوری کا بہترین ہتھیار ذکر الہی ہے،تمام نیک کاموں کی بجا آواری کے ذریعے ہم اللہ تعالی کی قربت اور شیطان سے دوری اختیار کرسکتے ہیں،ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میں تو آزاد آدمی ہوں شیطان میرا کیا بگاڑ سکتا ہے وہ شخص بڑی جہالت میں پڑا ہوا ہے چونکہ کتاب و سنت کے نصوص سے یہ ثابت ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے،شیطان ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے،شیطان نے آغاز میں ہی حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرکے اللہ تعالی کی نافرمانی کی تھی تب وہ عابد تھا،ملائکہ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا، اس کے بعد ممنوعہ درخت سے پھل کھانے پر آدم علیہ السلام اور حوا علہیا السلام کو قائل کرکے دھوکہ دیا تھا،پھر شیطان لعین ٹھرا اس نے انسانیت کو گمراہ کرنے کیلئے اللہ تعالی سے مہلت مانگ لی۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
{اَلشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِ ۖ وَاللّـٰهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللّـٰهُ وَاسِعٌ عَلِـيْمٌ}
[البقرة:268]
ترجمہ
(شیطان تمہیں تنگدستی کا وعدہ دیتا ہے اور بے حیائی کا حکم کرتا ہے، اور اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ دیتا ہے، اور اللہ بہت کشائش کرنے والا سب کچھ جاننے والا ہے۔)

شاركنا بتعليق


عشرين − سبعة عشر =




بدون تعليقات حتى الآن.