قسم اٹھانے کے لئے طلاق کا استعمال

الأثنين _16 _نوفمبر _2020AH admin
قسم اٹھانے کے لئے طلاق کا استعمال

کچھ جاہل لوگوں کے ہاں قسم اٹھانے کے لئے طلاق کا استعمال عام ہوا ہے،وہ کہتے ہیں کہ اگر میں نے یہ کام کیا تو میری بیوی طلاق،میرے اوپر تین طلاقیں میں یہ کام انجام نہیں دوں گا،یہ جاہل شخص اپنے گھر کو اجاڑنے کا سبب بنتا ہے،یہ اپنی گھر والی پر ظلم کا ارتکاب کرتا ہے کہ جس کی کوئی غلطی نہیں ہے،غلطی تو اس بیوقوف شخص کی اپنی ہے کہ وہ انجام سے بے خبر اپنی زبان چلاتا ہے۔
حضرت ابن عثیمین رحمہ اللہ جواب دیتے ہیں کہ :آدمی کا یہ کہنا میری بیوی طلاق تم یہ کام کرو،یا میری بیوی طلاق تم ایسا نہ کرو یا یہ کہنا کہ تم نے ایسا کیا تو میری بیوی طلاق،یا تم نہیں ایسا نہیں کیا تو میری بیوی طلاق،اس طرح کے دیگر صیغے یہ وہ کام ہیں جس کی راہ نمائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی ہے.
اکثر اہل علم فرماتے ہیں کہ بکثرت ایسے جملوں کے استعمال سے اس شخص کی بیوی طلاق ہوگی،اگرچہ راجح قول یہ ہے کہ بیوی طلاق نہیں ہوگی چونکہ اس کا حکم طلاق کا نہیں بلکہ قسم کا ہوگا بشرطیکہ اس کی نیت کسی چیز کی ترغیب یا منع کرنا ہو یا پھر اسکی تصدیق و تکذیب اور تاکید مراد ہو،تب حکم قسم کا ہوگا اللہ تعالی کے اس فرمان کے مصداق:
{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ قد فرض اللّه لكم تحلة أيمانكم }
[سورة التحريم:1،2]
ترجمہ:(اے نبی! آپ کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے، آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے،اللہ نے تمہارے لیے اپنی قسموں کا توڑ دینا فرض کر دیا ہے)
پس اللہ تعالی نے تحریم کو قسم فرمایا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ : 《اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے ہر شخص کو وہی ملے گا جسکی وہ نیت کرتا ہے》
جب کہ یہ شخص طلاق کی نہیں بلکہ قسم کی نیت کرتا ہے یا پھر قسم کے معنی کی،جب بکثرت کرے تو یہ شخص قسم کا کفارہ ادا کرے گا[فتاوی شیخ محمد صالح عثیمین(2/796)]

شاركنا بتعليق


خمسة × 2 =




بدون تعليقات حتى الآن.