کریم اور اکرم

الجمعة _8 _أكتوبر _2021AH admin
کریم اور اکرم

یہ دونوں نام اللہ تعالی کے بابرکت ناموں اور صفات میں سے ہیں۔
فرمایا :
{يَآ اَيُّـهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيْمِ}
[سورة الإنفطار:6]
ترجمہ
اے انسان تجھے اپنے رب کریم کے بارے میں کس چیز نے مغرور کر دیا۔
ایک اور جگہ فرمایا:
{اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْـرَمُ }
[سورة العلق:3]
ترجمہ
پڑھیے اور آپ کا رب سب سے بڑھ کر کرم والا ہے۔
کریم وہ ذات ہے جو بندے کو مانگنے سے پہلے عطا کرتی ہے،بغیر بدلے کے عنایت کرتی ہے،وہ ذات کہ گناہ اور گنہگار کو بخش دیتی ہے۔
اکرم کا معانی زیادہ خیر اور بھلائی والا ہے۔
ان دو مبارک ناموں کے ثمرات یہ ہیں کہ رب کریم وہ ذات کہ جو بندوں کیلئے خیر کے راستے آسان اور قریب کرتی ہے،وہ ذات تمام عیوب اور نقائص سے پاک ہے،کریم وہ ذات کہ بغیر وجہ اور سبب کے عطا کرتی ہے،اسے پرواہ نہیں ہوتی ہے کہ کس کو دے رہے ہیں لینے والا محتاج ہے کہ نہیں ہے،وہ اپنے طرف آنے والوں کو مایوس نہیں کرتا ہے۔
آثار سلوکیہ یہ ہیں کہ بندہ جب یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالی کریم ہے اکرم ہے اس سے بڑھ کر کوئی کریم نہیں ہے تو یہ بات بندے کی رب سے محبت کی موجب بنتی ہے،اور پھر انسان اللہ تعالی کی محبت،کرم،انعام کو حاصل کرنے کی جستجو کرتا ہے،وہ دل،زبان اور اعضاء سے شکر بجا لاتا ہے اور اللہ تعالی کیلئے بندگی کو خاص کرتا ہے۔
آثار سلوکیہ میں سے یہ بھی ہے کہ بندے کا رب کے ساتھ ادب کا تعلق بن جاتا ہے،وہ اللہ تعالی سے جڑ جاتا ہے،اس پر توکل کرتا ہے،اپنے معاملات اس کے سپرد کرتا ہے،چونکہ وہ کریم ہے،وہ قادر مطلق ہے جس کو کوئی عاجز نہیں کرسکتا،آثار میں سے یہ بھی ہے کہ انسان بھی کریم والی صفت سے خود کو متصف کرتا ہے ہاں مگر کرم کے نام پر اسراف اور فضول خرچی جائز نہیں کرم اسراف اور کنجوسی کے درمیان راہ اعتدال کا نام ہے،آثار میں سے یہ ہے کہ بندہ خود دعائیں کریں،اللہ تعالی سے حسن ظن رکھیں،اسی سے مرادیں مانگیں،یہ بات بھی اہم ہے کہ کرم کا تعلق ایمان کے ساتھ ہے،بندہ خواہ غریب ہو لیکن اگر وہ معصیت کی راہ پر ہے تو کرم بے سود ہے۔

شاركنا بتعليق


ثلاثة عشر − 7 =




بدون تعليقات حتى الآن.