کہا میں جہانوں کے پروردگار کا فرما بردار ہوں

السبت _20 _مارس _2021AH admin
کہا میں جہانوں کے پروردگار کا فرما بردار ہوں

پچیسواں درس :
شیخ احمد مقبل:
اس درس میں اللہ تعالی کیلئے سراپا تسلیم و رضا ہونے کے پانچواں ثمرہ اور فائدے کا ذکر ہوگا اور وہ ثمرہ بلند ہمتی،اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال قربان کرنا ،امر المعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا ہے،سلامتی والے دل کا مالک شخص بلند ہمت ہوتا ہے وہ ہمیشہ اعلی کام انجام دیتا ہے اس کا اخلاق بلند ہوتا ہے،وہ سطحی پن کو ناپسند کرتا ہے،اس کی بلند ہمتی اللہ تعالی کی خوشنودی کے کاموں میں ہوتی ہے وہ اللہ تعالی کی رضا کیلئے اپنا تن من دھن قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا ہے،اللہ تعالی نے ایسے مومن بندے کے اوصاف اس طرح بیان کئے ہیں۔
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِىْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّـٰهِ ۗ وَاللّـٰهُ رَءُوْفٌ بِالْعِبَادِ}
[سورة البقرة:207]
ترجمہ
(اور بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضا جوئی کے لیے اپنی جان بھی بیچ دیتے ہیں، اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے)
اسی طرح اللہ تعالی نے غزوہ احزاب کا نقشہ کھینچتے ہوئے اپنے پیغمبر اور اس کے اصحاب کے اوصاف یوں بیان فرمایا:
{وَلَمَّا رَاَى الْمُؤْمِنُـوْنَ الْاَحْزَابَ قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّـٰهُ وَرَسُوْلُـهٝ وَصَدَقَ اللّـٰهُ وَرَسُوْلُـهٝ ۚ وَمَا زَادَهُـمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا○مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّـٰهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْـهُـمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٝ وَمِنْـهُـمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا}
[سورة الأحزاب:22,23]
ترجمہ
(اور جب مومنوں نے فوجوں کو دیکھا تو کہا یہ وہ ہے جس کا ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا، اور اس سے ان کے ایمان اور فرمانبرداری میں ترقی ہو گئی۔ایمان والوں میں سے ایسے آدمی بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچ کر دکھایا، پھر ان میں سے بعض تو اپنا کام پورا کر چکے اور بعض منتظر ہیں اور عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی)
بلند ہمتی اور روح کے زندہ ہونے کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ جب اس شخص پر برائی پیش کی جائے تو وہ اس سے بھاگتا ہے چونکہ اس کا دل زندہ ہوتا ہے اس میں حیا ہوتی ہے،اور حیا دل کو زندہ رکھنے میں اہم مادہ ہے،سلامتی والے دل کا مالک شخص جب اس سے اطاعت چھوٹ جائے اور برائی کا ارتکاب ہوجائے تو وہ ندامت و شرمندگی محسوس کرتا ہے اس کے برعکس بیمار دل شخص گناہوں کے زخموں سے درد اور ٹھیس محسوس نہیں کرتا اسے پرواہ نہیں ہوتی ہے،اللہ رحم کرے آج کے دور میں ایسے لوگوں کی اکثریت اور کثرت ہے جو گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہیں اور انہیں احساس و شرمندگی تک نہیں،خاص طور پر میڈیا کے ذریعے جو فحاشی و عریانی کا سیلاب آیا ہے جس طرح زہریلے پروپیگنڈے کئے جاتے ہیں، آدمی گناہ کے آلات خود خرید کر گھر لاتا ہے فیملی اور بچوں کے ساتھ بیٹھ کر فحش ڈرامے اور فلمیں دیکھتا ہے،غیرت و حیا ختم،شہوات و شبہات کی پیروی عام،لوگوں کو فتنوں میں ڈالنا،یہ سب وہ عوامل و محرکات ہیں جن کے باعث دلوں اور آنکھوں سے حیا رخصت ہوچکی ہے،خوف خدا ختم ہوچکا ہے اور یہ بیمار اور مردہ دل کی علامات ہیں،جب کہ سلامتی والے دل کا مالک شخص کی کوشش ہمیشہ عمدہ اور نفیس کاموں کی بجا آوری ہوتی ہے،وہ اللہ تعالی کی خوشنودی اور آخرت کی کامیابی کا متلاشی ہوتا ہے،امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
“جب جب دل کا زندہ ہونا کامل ہوگا وہ بلند ہمت ہوگا وہ محبت و ارادے میں قوی ہوگا، چونکہ ارادہ اور شعور انسان کو محبوب شے کی طرف بڑھنے میں مدد اور فورس کرتے ہیں،اور دل کو ایسی آفات سے بچائے رکھتے ہیں جو آپ اور آپ کے ارادے کے درمیان حائل ہوتی ہیں طلب کو کمزور کرتی ہیں،کم ہمتی کا باعث یا تو شعور کا کمزور ہونا ہوتا ہے یا پھر کسی آفت کا موجود ہونا ہوتا ہے،پختہ شعور اور اور قوی ارادہ دل کے زندہ ہونے کی دلیل ہے،اور ان کا کمزور ہونا دل کے کمزور ہونے کی دلیل ہے،چونکہ حیات طیبہ اور خوبصورت زندگی بلند ہمتی،سچی محبت،خالص ارادہ سے حاصل ہوتی ہے،اسی اعتبار سے زندگی خوبصورت بنتی ہے،لوگوں میں سے مردہ دل وہ ہیں جو کم ہمتی کے شکار ہیں،ان کی اور جانوروں کی زندگی میں کچھ خاص فرق نہیں رہ جاتا ہے۔
جس طرح کسی عرب شاعر نے خوب کہا
نــهـارُك يـا مـغـرورُ سـهـو وغـفـلة
وليـــــلُك نـــــوم والردى لك لازم
تُـسـر بـمـا يَـبـلى وتـفـرحُ بالمُنى
كـمـا غُرّ باللذات في النوم حالمُ
وســعـيِّكـ فـيـمـا سـوف تـكـره غِـبـهُ
كـذلك فـي الدنـيـا تعيشُ البهائمُ

اے غافل تیرا دن بھول بھلیوں میں گزر جاتا ہے اور رات خواب و خراٹوں میں بسر ہوتی ہے،بوسیدہ اور فنا ہونے والی چیزوں میں تو لطف اٹھا رہا ہے جیسے خواب میں پڑا شخص،تیری کوششیں ان کاموں میں ہیں جن کا انجام یقینی طور پر تجھے اچھا نہیں لگے گا اس طرح تو جانور زندگی گزارتے ہیں۔
(ابن قیم رحمہ اللہ کا کلام یہاں پر ختم ہوا )
علو ہمت یعنی بلند ہمتی میں سے یہ بھی ہے کہ انسان اللہ تعالی کی تعظیم کرے اور شعائر اللہ پر غیرت کا مظاہرہ کرے،کوئی شخص اگر شعائر اللہ پر گستاخی کا ارتکاب کرے تو اس بلند ہمت مومن کا خون جوش مارتا ہے اسے چین نہیں آتا ہے وہ تڑپ اٹھتا ہے،اس کے جذبات مجروح ہوتے ہیں،وہ امر المعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بجا لاتا ہے وہ راہ خدا میں جہاد کرتا ہے،وہ دین کے معاملات میں غیرت مند ہوتا ہے لوگوں پر مشفق ہوتا ہے انہیں جہنم سے بچانا چاہتا ہے جب کہ بیمار دل ان خوبیوں سے محروم ہوتا ہے اسے بس پیٹ بھر کر کھانے پینے سے مطلب ہوتا ہے،وہ اس فانی دنیا کو سب کچھ سمجھ کر اسی سے لطف اٹھاتا ہے۔

شاركنا بتعليق


ستة عشر − خمسة =




بدون تعليقات حتى الآن.