کہا میں جہانوں کے پروردگار کا فرما بردار ہوں

الثلاثاء _3 _نوفمبر _2020AH admin
کہا میں جہانوں کے پروردگار کا فرما بردار ہوں

نواں درس:
شیخ احمد مقبل :
حمد و ثناء کے بعد: یہ نواں کلپ ہے ہم اس میں اسلام کے معنی کی تشریح پیش کریں گے جو کہ تمام انبیاء کرام کا دین ہے۔
قاموس میں ‘أسلم ‘ کا معانی ہے اطاعت اور مسلمان ہونے کے،امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسلام کے معنی کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” لفظ اسلام دو صورتوں میں استعمال ہوتا ہے:متعدی اور لازم متعدی کی مثال اللہ تعالی کا یہ فرمان:
{وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٝ لِلّـٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّـةَ اِبْـرَاهِيْـمَ حَنِيْفًا ۗ وَاتَّخَذَ اللّـٰهُ اِبْـرَاهِيْـمَ خَلِيْلًا }
[سورة النساء:125]
ترجمہ :
اس شخص سے بہتر دین میں کون ہے جس نے اللہ کے حکم پر پیشانی رکھی اور وہ نیکی کرنے والا ہوگیا اور ابراہیم کے دین کی پیروی کی جو یکسو تھا، اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا ہے۔
لازم کی مثال اللہ تعالی کے اس فرمان میں:
{اِذْ قَالَ لَـهٝ رَبُّهٝٓ اَسْلِمْ ۖ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِيْنَ}
[سورة البقرة:131}
ترجمہ:
جب اسے اس کے رب نے کہا فرمانبردار ہو جا تو کہا میں جہانوں کا پروردگار کا فرمانبردار ہوں ۔
لفظ اسلام میں دونوں معانی پائے جاتے ہیں ایک تسلیم و اطاعت دوسرا اخلاص و انفرادیت جیسے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{ضَرَبَ اللّـٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيْهِ شُرَكَآءُ مُتَشَاكِسُوْنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ؕ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ اَلْحَـمْدُ لِلّـٰهِ ۚ بَلْ اَكْثَرُهُـمْ لَا يَعْلَمُوْنَ}
[سورة الزمر:29]
ترجمہ:
اللہ نے ایک مثال بیان کی ہے ایک غلام ہے جس میں کئی ضدی شریک ہیں اور ایک غلام سالم ایک ہی شخص کا ہے، کیا دونوں کی حالت برابر ہے، سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، مگر ان میں سے اکثر نہیں سمجھتے۔
اس کا عنوان لا الہ الا اللہ ہے اس کے دو معانی ہیں ایک دین تمام انبیاء کرام کے درمیان مشترک ہے،وہ یوں کہ ایک اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی کی جائے،تمام انبیاء دعوت توحید میں ایک تھے جیسے کہ کتاب و سنت کے نصوص سے ثابت ہوتا ہے،دوسرا معانی وہ خاص چیزیں ہیں جو اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دین، شریعت اور منہج کے طور پر عطا کی ہیں،اور وہ شریعت طریقت اور حقیقت ہے،ایک اور جگہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
{وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٝ لِلّـٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّـةَ اِبْـرَاهِيْـمَ حَنِيْفًا ۗ وَاتَّخَذَ اللّـٰهُ اِبْـرَاهِيْـمَ خَلِيْلًا}
[سورة النساء:125]
ترجمہ:
اس شخص سے بہتر دین میں کون ہے جس نے اللہ کے حکم پر پیشانی رکھی اور وہ نیکی کرنے والا ہوگیا اور ابراہیم کے دین کی پیروی کی جو یکسو تھا، اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا ہے۔
اللہ تعالی نے دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کے اچھے ہونے کا انکار کیا ہے،اور دین اسلام خالص اللہ تعالی کی خوشنودی کے حصول اور احسان کا نام ہے،جس نے بھی اخلاص اور احسان کے ساتھ اسلام قبول کیا اور تقاضے پورے کئے ان کے لئے اللہ تعالی کے ہاں اجر عظیم ہے ان کے لئے کوئی خوف اور غم نہیں ہے،اخلاص اور احسان یہ دو اہم اصول ہیں،قول اور عمل دونوں کا اللہ کے لئے خاص کرنا،خالص نیت کے ساتھ عمل کا کتاب و سنت کے موافق ہونا بھی لازمی ہے،آئمہ سلف ان دونوں کو جمع کرتے تھے حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ
اللہ تعالی کے اس فرمان:
{لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا}
[سورة الملك:2]
ترجمہ:
تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کس کے کام اچھے ہیں۔
کے متعلق فرماتے ہیں:
‘اخلصه و اصوبه ‘ یعنی خالص ترین اور درست ترین،پوچھا گیا کہ اے ابو علی اس سے کیا مراد ہے؟ جواب دیا :عمل کتاب و سنت کے مطابق تو ہو لیکن اخلاص نہ ہو تب یہ قبول نہیں ہوگا،لیکن اگر اخلاص ہو لیکن عمل کتاب و سنت کے مطابق نہ ہو تب بھی قبول نہیں ہوگا،خالص کا مطلب صرف اللہ کے لئے ہو اور درست کا مطلب سنت کے مطابق ہو،امام ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں اسلام کے پانچ معانی اور صورتیں بیان کی گئی ہیں:
1۔ بطور دین کا نام: {اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّـٰهِ الْاِسْلَامُ} [سورة آل عمران:19]
ترجمہ:بےشک دین اللہ کے ہاں فرمانبرداری ہی ہے۔
2۔ توحید کے لئے:{يَحْكُمُ بِـهَا النَّبِيُّوْنَ الَّـذِيْنَ اَسْلَمُوْا} [سورة المائدة:44]
ترجمہ :اس پر اللہ کے فرمانبردار پیغمبر یہود کو حکم کرتے تھے۔
3۔ اخلاص کے لئے:{اِذْ قَالَ لَـهٝ رَبُّهٝٓ اَسْلِمْ ۖ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِيْنَ} [سورة البقرة:131]
ترجمہ:جب اسے اس کے رب نے کہا فرمانبردار ہو جا تو کہا میں جہانوں کا پروردگار کا فرمانبردار ہوں۔
4۔ تسلیم و اطاعت کے لئے:{وَلَهٝٓ اَسْلَمَ مَنْ فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْض} [سورة آل عمران:83]
ترجمہ:حالانکہ جو کوئی آسمان اور زمین میں ہے خوشی سے یا لاچاری سے سب اسی کے تابع ہے۔
5۔ زبان سے اقرار کرنے کے لئے:{قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُـوْا وَلٰكِنْ قُـوْلُـوٓا اَسْلَمْنَا}[سورة الحجرات:14]
ترجمہ:کہہ دو تم ایمان نہیں لائے لیکن تم کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں۔
سعودی عرب کی علمی تحقیقی دائمی کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ دین کو اسلام کیوں نام دیا گیا؟ تو ان کا جواب تھا کہ جو بھی شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے اسے اللہ تعالی اور اس کے رسول کے تمام فرمودات اور اوامر کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہوتا ہے۔فرمایا:
{وَمَنْ يَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْـرَاهِيْمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٝ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِى الـدُّنْيَا ۖ وَاِنَّهٝ فِى الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِيْنَ}[سورة البقرة:130]
ترجمہ :اور کون ہے جو ملت ابراھیمی سے روگردانی کرے سوائے اس کے جو خود ہی احمق ہو، اور ہم نے تو اسے دنیا میں بھی بزرگی دی تھی، اور بے شک وہ آخرت میں بھی اچھے لوگوں میں سے ہوگا۔
یہاں تک کہ اللہ تعالی کے فرمان:
{اِذْ قَالَ لَـهٝ رَبُّهٝٓ اَسْلِمْ ۖ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِيْنَ}[سورة البقرة:131]
ترجمہ:جب اسے اس کے رب نے کہا فرمانبردار ہو جا تو کہا میں جہانوں کا پروردگار کا فرمانبردار ہوں۔
اور
{بَلٰى مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٝ لِلّـٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَـهٝٓ اَجْرُهٝ عِنْدَ رَبِّهٖۖ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْـهِـمْ وَلَا هُـمْ يَحْزَنُـوْنَ}
[سورة البقرة:112]
ترجمہ:
ہاں جس نے اپنا منہ اللہ کے سامنے جھکا دیا اور وہ نیکو کار بھی ہو تو اس کے لیے اس کا بدلہ اس کے رب کے ہاں ہے، اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق سے نوازے۔

شاركنا بتعليق


7 + 9 =




بدون تعليقات حتى الآن.