کہا میں جہانوں کے پروردگار کا فرما بردار ہوں

الخميس _31 _ديسمبر _2020AH admin
کہا میں جہانوں کے پروردگار کا فرما بردار ہوں

پندرھواں درس:
شیخ احمد مقبل:
حمد و ثناء کے بعد:
عقل اور نقل(کتاب و سنت) کے درمیان تعارض کے وہم پر بات کریں گے،درحقیقت عقل سلیم اور نقل صحیح میں کوئی تعارض اور ٹکراو نہیں ہے،یہ اہل حق کا موقف ہے کہ عقل اور وحی میں کوئی ٹکراو نہیں ہے،اگر کہیں ظاہری طور ایسا لگے کہ عقل اور نقل میں تعارض ہے تو اس صورت میں یا تو نقل (کتاب و سنت کا نص) ثابت نہیں ہے اس صورت کوئی ٹکراو نہیں ہے یا پھر نقل تو صحیح ہے لیکن استدلال کرنے والے نے غلط استدلال کیا ہے اس کی عقل درست ادراک اور استدلال سے قاصر رہی ہے،اس صورت میں خرابی عقل میں ہے کج فہمی وجہ ہے،اسی بارے میں امام ابن قیم رحمہ اللہ نونیہ میں فرماتے ہیں۔
فإذا تعارض نص لفظ وراد
والعقل حتى ليس يلتقيان
فالعقل إما فاسد ويظنه الرائي صحيحا وهو ذو بطلان
أو أن ذاك النص ليس بثابت
ما قاله المعصوم بالبرهان
ونصوصه ليس تعارض بعضها
بعضا فسل عنها عليم زمان
وإذا ظننت تعارضا فيها فذا
من آفة الأفهام والأذهان
جب نص کے لفظ یعنی عقل اور نقل کے درمیان تعارض ہوجائے اور وہ دونوں باہم نہ ملے
اس صورت عقل میں خرابی ہے اور استدلال کرنے والا اسے درست سمجھ رہا ہے
یا پھر وہ نص ثابت نہیں،وہ معصوم(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی برھان اور دلیل نہیں ہے۔
اس کے نصوص کا آپس میں کوئی تعارض نہیں ہے زمانے کے عالم شخص سے پوچھ لیں
آپ کو اگر تعارض کا گمان ہو جائے تو یہ کج فہمی ہے۔
تعارض وہمی کی چند صورتیں درج ذیل ہیں
عقل سلیم اور فہم کامل نہ رکھتی ہو جب کہ نقل صحیح اور ثابت ہو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے ان چیزوں پر غور کیا جس میں عام لوگ تنازعے میں پڑے ہیں چنانچہ میں نے یہ پایا کہ جن نصوص صحیحہ اور صریح کی مخالفت کی جاتی ہے ان کے مقابل فاسد شبہات ہیں عقل ان کے باطل ہونے کو مانتی ہے،بلکہ عقل کے ذریعے اس کے مخالف نصوص شرع کا اثبات بھی ہوتا ہے۔اور یہ کہ میں نے بڑے بڑے اصولی مسائل جیسے توحید،تقدیر ،صفات،نبوات اور عقیدہ آخرت پر بھی غور کیا پس میں نے یہ پایا کہ جن چیزوں کو عقل سلیم مانتی ہے شریعت نے ان کی مخالفت ہرگز نہیں کی ہے۔دوسری قسم عقل صحیح صریح اور سلیم ہو لیکن نقل و نص ثابت نہ ہو اور اس کی وجہ استدلال کرنے والے کے لئے نزدیک نص ثابت ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے،پس اس کے نزدیک تعارض ظاہر ہے،یہ تعارض دراصل ایک دلیل صحیح کا دوسری دلیل غیر صحیح کے ساتھ ہے یعنی دلیل فاسد کے ساتھ جب کہ دلیل فاسد دلیل ہی نہ کہلا سکتی ہے چہ جائے کہ دلیل صحیح کے مقابل آجائے،چنانچہ دلیل صحیح خواہ وہ عقلی ہو یا نقلی اس کو فوقیت حاصل ہوگی۔
تیسری شکل یہ ہے کہ نقل صحیح ہو لیکن استدلال کرنے والے سے غلطی ہوگئی اس صورت میں تعارض نتیجہ ہے استدلال کرنے والے کی غلط فہم کا،تقصیر کبھی معرفت طرق میں ہوتی ہے اور گاہے معرفت دلالت اور معانی میں واقع ہوتی ہے۔
اللہ تعالی ہمیں عمل صالح اور علم نافع کی توفیق بخشے ۔

شاركنا بتعليق


ثمانية − 5 =




بدون تعليقات حتى الآن.