کہا میں جہانوں کے پروردگار کا فرما بردار ہوں

الخميس _7 _يناير _2021AH admin
کہا میں جہانوں کے پروردگار کا فرما بردار ہوں

سترھواں درس:
شیخ احمد مقبل:
سابقہ درس میں عقل کے مقامات غور و فکر اور اعمال عقل گزر چکا اس درس میں ہم ان مقامات کا ذکر کریں گے جہاں عقل کی بجائے وحی کی مانی اور سنی جائے گی ان مقامات میں عقل کو دخل حاصل نہیں ہے،عقل کے پاس سوائے تسلیم و اطاعت کے کوئی چارا نہیں ہے اور یہی بندگی کا جوہر لب لباب اور شجر ایمان کی جڑ و بنیاد ہے،ان مقامات میں سے سب سے پہلے۔
مغیبات(امور غیب) کو تسلیم کرنا:یہ مومنین کی اہم صفات میں سے ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
{الٓــمٓ○ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۖ فِيْهِ ۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ○اَلَّـذِيْنَ يُؤْمِنُـوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُـمْ يُنْفِقُوْنَ}
[سورة البقرة: 1.2.3]
ترجمہ:
ا ل مۤ ،یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں، پرہیز گارو ں کے لیے ہدایت ہے۔جو بن دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ا ور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں خرچ کرتے ہیں۔
غیب اس کو کہتے ہیں جو انسان کے مشاہدے سے باہر ہو اور عقلوں کے ادراک سے پرے ہو ،غیب میں سے کچھ تو “غیب نسبی اضافی” ہے یعنی وہ کچھ افراد کے لئے تو غیب ہوتا ہے لیکن کچھ افراد تجربہ یا آلہ کے ذریعے اس کو پا لیتے ہیں ان کے لئے وہ غیب نہیں رہتا ہے جیسے سورج اور چاند کی گردش اور گرہن کا علم ،موسم کا حال احوال،ماں کے پیٹ میں موجود بچے سے متعلق معلومات،اسی طرح ایک غیب وہ ہے جو دنیاوی زندگی میں تو غیب ہے لیکن برزخ اور اخروی زندگی میں وہ غیب نہیں ہوگا،پھر غیب کی ایک قسم وہ ہے جس کا علم صرف اللہ تعالی کو ہے جیسے قیامت کا علم اسکی حقیقت کا علم،درحقیقت غیب پر ایمان ایک فطری عمل ہے،انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر حال میں غیب پر ایمان لے آئے،چونکہ انسان غیب سے الگ ہو ہی نہیں سکتا ہے اگر انسان وحی،کتاب و سنت اور عقلی دلائل کی بنیاد پر غیب پر ایمان نہیں لائے گا تو پھر لامحالہ خرافات کا شکار ہوگا اور توہم پرستی اور جھوٹی چیزوں پر یقین کرے گا،چنانچہ ایسے معاشرے جہاں عقلیت اور مادیت کا غلبہ ہے وہاں جادو ٹونے،توہم پرستی اور خرافات کا راج ہوتا ہے۔اسی طرح کتاب و سنت میں وارد قصص،سابقہ امتوں کی خبریں مستقبل کی پیش گوئیاں بھی مغیبات میں داخل ہیں اور انہیں تسلیم کرنا ان کی تصدیق کرنا ہم پر واجب ہے،اور تصدیق کامل ہم سے مطلوب ہے بغیر کیوں اور کیسے سوالات و اعتراضات کے،اللہ تعالی فرماتے ہیں:
{وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۚ لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْـمُ }
[سورة الأنعام:115]
ترجمہ:
اور تیرے رب کی باتیں سچائی اور انصاف کی انتہائی حد تک پہنچی ہوئی ہیں، اس کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا، اور وہ سننے والا جاننے والا ہے۔
یعنی غیب کے خبروں کی تصدیق اور احکام میں انصاف.
دوسرا مقام : تمام احکام شرعی،حکموں اور منہیات کو قبول و تسلیم کرنا خواہ ان کی حکمتوں کا ہمیں علم و ادراک ہو یا نہ ہو ،ہمارے لئے یہ جاننا ہی کافی ہے کہ یہ احکام اللہ علیم و خبیر،عزیز و حکیم اور روف و رحیم ذات کی طرف سے ہیں،اور اللہ تعالی نے کسی حکمت کے تحت ہی اسے شریعت بنایا ہے اور یہی بندگی کی حقیقت ہے،حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
اے لوگو! اپنی عقلوں کا قصور سمجھو، قسم اللہ کی تم دیکھتے مجھ کو ابوجندل کے روز (یعنی حدیبیہ کے دن ابوجندل کا نام عاص بن سہیل بن عمرو تھا) اگر میں طاقت رکھتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو پھیرنے کی البتہ پھیر دیتا اس کو (یہ مبالغہ کے طور پر کہا یعنی صلح ہم کو ایسی ناگوار تھی) (بخاری و مسلم)
لیکن اس کے بعد صلح حدیبیہ کے نتائج صحابہ کرام پر واضح ہوگئے کہ صلح دراصل مسلمانوں کے حق میں فتح اور خیر ثابت ہوئی،اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے یہ کہنا کہ میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے کسی کو نفع و نقصان نہیں دے سکتے ہو اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو بوسہ نہ دیتا۔(بخاری و مسلم )
تیسرا مقام :تقدیر اور احکام کونی پر ایمان و یقین رکھنا یہ کہ جو کچھ ہمارے نصیب میں لکھا ہوا ہے اس میں اللہ تعالی کی بڑی حکمت اور مصلحت پنہاں ہے اور مومن کے لئے ان سب میں بھلائی ہے.

شاركنا بتعليق


ستة − 5 =




بدون تعليقات حتى الآن.