کہا میں جہانوں کے پروردگار کا فرما بردار ہوں
الثلاثاء _9 _فبراير _2021AH adminبیسواں درس :
شیخ احمد مقبل:
سابقہ درس میں تسلیم و اطاعت کا پہلا رکن کا ذکر گزر چکا کہ اللہ تعالی کی طرف سے بتائی گئی خبروں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بتائی گئی صحیح خبروں کو من و عن تسلیم کرنا،انہیں قبول کرنا اور ان کی تصدیق کرنا جب کہ دل مطمئن ہو کسی قسم کا کوئی اعتراض اور ادنی شبہ نہ ہو ،بغیر کسی سوال،کیسے؟ اور کیوں کے۔
آج کے درس میں ہم تسلیم و اطاعت کے دوسرے رکن کے متعلق کچھ باتیں عرض کریں گے دوسرا رکن اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں و فیصلوں کو دل سے تسلیم کرنا، احکام شرعی کو بغیر کسی اعتراض سوال،شبہ،رائے،ذوق،سیاست اور “کیوں “کی قید کے دل سے تسلیم و قبول کرنا خواہ ان حکموں کی حکمتوں کا علم ہو یا نہ ہو،ایمان و تسلیم رضا و قبول کے بغیر ممکن نہیں ہے اللہ تعالی کی شریعت کے حکموں اور منہیات کو تسلیم کرنا اس بارے میں قرآن مجید سے دلیلیں ملاحظہ کیجئے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّـٰهُ وَرَسُوْلُـهٝٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُـوْنَ لَـهُـمُ الْخِيَـرَةُ مِنْ اَمْرِهِـمْ ۗ وَمَنْ يَّعْصِ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِيْنًا}
[سورة الأحزاب 36]
ترجمہ
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو لائق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دے تو انہیں اپنے کام میں اختیار باقی رہے، اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو وہ صریح گمراہ ہوا۔
دوسری جگہ فرمایا:
{فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُـوْنَ حَتّـٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَـهُـمْ ثُـمَّ لَا يَجِدُوْا فِىٓ اَنْفُسِهِـمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا}
[سورة النساء :65]
ترجمہ
سو تیرے رب کی قسم ہے یہ کبھی مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ اپنے اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں پھر تیرے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور خوشی سے قبول کریں۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ اس آیت سے متعلق فرماتے ہیں :
اللہ تعالی نے یہاں اپنی عظیم ذات کی قسم کھائی اور ان لوگوں سے ایمان کی نفی کہ ہے جب تک وہ اپنے تمام جھگڑوں کے فیصلوں کیلئےاللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع نہیں کرتے ہیں اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو دل جان سے ظاہر و باطن سے تسلیم نہیں کرتے ہیں،اسی پر بس نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر شرح صدر اور دلی کشادگی بھی ضروری ہے،جو انسان یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کہاں کھڑا ہے اسے چاہئے کہ اپنے نفس کو اوامر اور نواہی کے وقت دیکھ لیں کہ اس کے دل کی کیفیت کیا ہے وہ کیا محسوس کر رہا ہے.
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
{بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِيْـرَةٌ}
[سورة القيامة:14]
ترجمہ
بلکہ انسان اپنے اوپر خود شاہد ہے۔
دینی احکام پر عمل کرتے ہوئے کتنے ہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں یہ تمنا جاگ جاتی ہے کہ کاش یہ حکم یہ مسئلہ یہ پابندی دین میں نہ ہوتی،لازمی ہے کہ تسلیم و قبول دل کی رضا اور خوشنودی کے ساتھ ہو نہ کہ اسے بوجھ اور جبر و صبر سمجھتے ہوئے،جس طرح ایک غلام اپنے آقا کی خوشنودی کا طالب ہوتا ہے بعینہ ۔
شاركنا بتعليق
بدون تعليقات حتى الآن.