کہا میں جہانوں کے پروردگار کا فرما بردار ہوں درس نمبر 23

السبت _27 _فبراير _2021AH admin
کہا میں جہانوں کے پروردگار کا فرما بردار ہوں درس نمبر 23

شیخ احمد مقبل:
اس درس میں اللہ تعالی کیلئے مطیع ہونے کے ثمرات میں سے دوسرا اور تیسرا ثمرہ اور فائدے کا ذکر ہوگا،وہ یہ کہ اللہ تعالی کیلئے بندگی کو خالص کرنا اور عبادت کی مٹھاس پالینا،ریا کاری اور دکھلاوے سے بچ جانا،بندہ اللہ تعالی کے آگے سراپا تسلیم و رضا ہوجاتا ہے،وہ صرف اسی رب کی بندگی کرتا ہے،وہ اپنے عمل کے ذریعے صرف رب تعالی کی خوشنودی کا طالب ہوتا ہے،وہ اللہ تعالی کے درد کے علاوہ کسی در کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھتا ہے،اسے پھر تعریف شہرت اور دنیاوی مصلحت کی بھوک نہیں ہوتی ہے،اللہ تعالی نے اپنے مطیع اور موحد بندے اور کافر مشرک بندے کے فرق کو ایک مثال کے ذریعے بیان کی ہے،فرمایا:
{ضَرَبَ اللّـٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيْهِ شُرَكَآءُ مُتَشَاكِسُوْنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ؕ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ اَلْحَـمْدُ لِلّـٰهِ ۚ بَلْ اَكْثَرُهُـمْ لَا يَعْلَمُوْنَ}
[سورة الزمر:23]
اللہ نے ایک مثال بیان کی ہے ایک غلام ہے جس میں کئی ضدی شریک ہیں اور ایک غلام سالم ایک ہی شخص کا ہے، کیا دونوں کی حالت برابر ہے، سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، مگر ان میں سے اکثر نہیں سمجھتے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں بندہ موحد اور مشرک کے درمیان فرق واضح کیا ہے،مشرک کی مثال اس غلام کی سی ہے جس کے کئی آقا ہیں وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں کہ کون اس سے خدمت لے گا نتیجتا یہ غلام ان میں سے کسی ایک کی بھی خوشنودی حاصل نہیں کر پاتا بعینہ کئی معبودوں کی پرستش کا معاملہ ہے،جبکہ بندہ مومن کی مثال اس غلام کی سی ہے جس کا ایک آقا ہے وہ اپنے آقا کی خوشنودی کے طریقے کو بھی جانتا ہے اس کے مزاج سے بھی واقف ہے،اس کی خدمت کے ذریعے اس کی خوشنودی اور احسان و شفقت بھی حاصل کرتا ہے نتیجتا یہ غلام دلی طور پر مطمئن اور خوش رہتا ہے اسے سکون و راحت ملتی ہے،یہ بندہ موحد کی مثال ہے جو صرف اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی بجا لاتا ہے۔
کیا یہ دونوں بندے برابر ہوسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں!
تیسرا فائدہ : دل حسد اور کینہ سے پاک صاف ہوتا ہے،دل میں اپنے مسلمان بھائی کیلئے کوئی شر اور برائی کے جذبات نہیں ہوتے ہیں،یہ اللہ تعالی کے لئے مطیع ہونے کے ثمرات میں سے ہے کہ دل پاک صاف ہوتا ہے اسے قلب سلیم کہا جاتا ہے،یہ وعظ و نصیحت موت و حیات میں اللہ تعالی کے لئے مطیع ہوتا ہے،یہ جانتا ہے کہ حسد کرنا دراصل اللہ تعالی کی تقدیر اور تقسیم پر اعتراض کرنا ہے،جس کا دل سلامتی والا دل بن جاتا ہے پھر وہ ہر طرح کی بیماریوں سے پاک ہوتا ہے۔
اس کے برعکس جس کا دل سلامتی والا دل نہیں ہے اس کا سینہ بغض و عناد اور کینہ و عداوت سے پاک نہیں وہ ہمیشہ اضطراب اور پریشانی میں رہتا ہے،اس کا دل ہر طرح کی بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے،وہ اپنے رویوں،اپنی فکر اپنے اخلاق اور تعامل میں تنگی محسوس کرتا ہے۔
سلامتی والا دل رکھنے والے شخص کے دل میں محبت مودت اور شفقت ہوتی ہے اس کی دھڑکنوں میں خیر خواہی کے جذبات ہوتے ہیں،وہ سب کیلئے بھلائی چاہتا ہے،یہ دل والا شخص مطمئن اور راحت میں ہوتا ہے وہ اپنے عزیز و اقارب اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ رحمدلی اور نرمی سے پیش آتا ہے،ان سے محبت کرتا ہے ان کیلئے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے نفس کیلئے کرتا ہے یہ بندہ حقیقی معنوں میں اس آیت کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان صفات کے نقش قدم پر چلتا ہے یہ اسی کے زیر اثر ہوتا ہے۔
{لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّـمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْـمٌ}
[سورة التوبة:128]
ترجمہ
البتہ تحقیق تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول آیا ہے، اسے تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے تمہاری بھلائی پر، وہ حریص (فکرمند) ہے مومنوں پر، نہایت شفقت کرنے والا مہربان ہے۔
امام ابن سیرین سے پوچھا گیا کہ قلب سلیم کس دل کو کہتے ہیں ؟
آپ نے جواب دیا: وہ دل جو مخلوقات کیلئے ناصح ہوتا ہے۔ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہوتی تھی کہ “اے اللہ میں تجھ سے سلامتی والا دل مانگتا ہوں(احمد ،ابو دواد)
صحیح مسلم میں ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنت میں ایسی اقوام بھی داخل ہوں گی جن کے دل پرندوں کے دل کی طرح ہوں گے۔ امام قرطبی اس حدیث پر تعلیق چڑھاتے ہیں کہ یہ دل گناہ اور عیب سے پاک ہوں گے،انہیں دنیاوی معاملات میں زیادہ مہارت نہیں ہوگی.

شاركنا بتعليق


ثمانية − أربعة =




بدون تعليقات حتى الآن.