ہدایت کے اسباب اور رکاوٹیں

الجمعة _22 _سبتمبر _2023AH admin
ہدایت کے اسباب اور رکاوٹیں

ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کیلئے صراط مستقیم کی طرف توفیق کا نام ہے، ہدایت کی جگہ دل ہے، ہدایت صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے اپنے فضل سے ہدایت دے اور جسے اپنی حکمت و عدل سے گمراہ کرے،انسان کو کھانے پینے اور خون و سانسوں سے بھی زیادہ ہدایت کی ضرورت ہے، پھر جب اللہ تعالیٰ بندے کو ہدایت دیتا ہے وہ ثابت قدمی کا محتاج ہوتا ہے، پوری زندگی اسے استقامت دکھانی ہے، تاکہ اس کا خاتمہ ہدایت پر ہو، اسی لیے سورہ فاتحہ میں آیا ہے کہ
اهدنا الصراط المستقيم
ہدایت کے مختلف ارکان ہیں، پہلا ہدایت علمی یعنی مامورات اور منہیات کا علم، ہدایت عملی یعنی عمل کی طرف ہدایت، ہدایت دائمی یعنی ثابت قدمی موت تک، ہدایت یہ ہے کہ جسے دنیا میں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی گئی، جسے قبر میں فرشتوں کے سوالات کے وقت ثابت قدمی کی ہدایت نصیب ہو، جسے پل صراط سے گزرتے ہدایت نصیب ہو، جسے جنت میں داخلے کی ہدایت نصیب ہو.
{وَمَنْ يَّعْتَصِمْ بِاللّـٰهِ فَقَدْ هُدِىَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِـيْمٍ}
[آل عمران :101]
ترجمہ
اور جو شخص اللہ کو مضبوط پکڑے گا تو اسے ہی سیدھے راستے کی ہدایت کی جائے گی.
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں
دلوں کے فساد کے دو مدار ہیں، ایک فساد قصدی و ارادی اسکی وجوہات شہوت اور دوسرا فساد علمی ہے جس کی وجوہات جہل ہے، یہودیوں کا فساد فساد قصد تھا جب کہ نصاری کا فساد علمی تھا یعنی وہ جاہل تھے جب کہ یہودی شہوت پسند، دل کو دو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں دونوں بہت خطرناک ہیں ایک بیماری ریاکاری کی ہے اور دوسری بیماری نرگسیت اور خودپسندی کی ہے، دونوں کا علاج سورہ فاتحہ کے اياك نعبد و إياك نستعين می‍ں موجود ہے جب آدمی اياك نعبد کہتا ہے وہ ریاکاری سے علاج پاتا ہے اور جب وہ اياك نستعين کہتا ہے اسے خودپسندی سے نجات ملتی ہے، ایک صحابی فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ایک سو کتابیں نازل فرمائی ان سو کا نچوڑ تورات انجیل زبور اور قرآن میں ہے اور سابقہ تینوں کا نچوڑ قرآن مجید میں اور قرآن مجید کا مفصلات میں اور مفصلات کا سورہ فاتحہ میں جب کہ سورہ فاتحہ کا اياك نعبد و إياك نستعين می‍ں ہے، یہ سورہ بندہ اور رب کے درمیان نصف تقسیم ہے، عبادت میں دو بنیادیں شامل ہیں دو اہم اصول ہیں، کمال محبت اور کمال عاجزی، استعانت میں دو عظیم اصول کارفرما ہیں، ثقہ و اعتماد، انسان ہمیشہ استقامت کا محتاج رہتا ہے، انسان جب اپنوں کے درمیان رہتا ہے یہ خطرہ موجود ہوتا ہے کہ و انحراف فکری کا مرتکب ہوجائے، شبہات میں پڑ جائے اور خود کو عقل کل سمجھ کر دینی امور میں جسارت کر جائے یا کسی گناہ میں پڑ کر اس کو جسٹیفائی کرے، لہذا اسے ہدایت دائمی کی ضرورت ہوتی ہے، انسان جب زیادہ گناہ کرتا ہے دل اس کا سیاہ ہوتا ہے وہ توفیق سے محروم ہوجاتا ہے، اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے اسے لگتا ہے جیسے وہ قید میں ہو.
اللہ تعالیٰ ہدایت دے

شاركنا بتعليق


سبعة + 2 =




بدون تعليقات حتى الآن.