36واں درس “الحکیم”

الجمعة _27 _مايو _2022AH admin
36واں درس “الحکیم”

اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں میں سے ایک نام الحکیم ہے.یہ نام قرآن مجید میں کثرت سے آیا ہے.
فرمان رب العالمين ہے
{سَبَّحَ لِلّـٰهِ مَا فِى السَّمَاوَاتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِـيْمُ}
[الصف:1]
ترجمہ
جو مخلوقات آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اللہ کی تسبیح کرتی ہے، اور وہی غالب حکمت والا ہے۔
حکیم وہ ذات کہ جس کی حکمت اس کے حکم، خلق اور شریعت میں بلند اور رسا ہے، جس نے ہر چیز کی خوبصورت تخلیق فرمائی، کسی چیز کو فضول اور بے سبب پیدا نہیں کیا. حکمت کا معنی ہر چیز کو اسکی مناسب اور موزوں جگہ رکھنا ہے، حکیم نام دو اہم اور عظیم معنوں پر مشتمل ہے، پہلا یہ کہ حکیم کا حکم دنیا اور آخرت دونوں میں چلتا ہے، اور تین اہم احکام کو شامل ہے احکام کونی قدری، احکام دینی شرعی اور احکام جزئی حکم کونی قدری وہ ہوتا ہے جس کا وقوع پذیر ہونا لازمی ہوتا ہے بسا اوقات یہ اللہ تعالیٰ کی پسند سے ہوتا ہے اور گاہے ناپسندیدگی جیسے کفر میں پڑنا، حکم دینی شرعی اللہ تعالیٰ کے محبوب احکام ہوتے ہیں لیکن لازمی نہیں کہ وہ وقوع پذیر ہوجائیں، گاہے واقع ہوتے ہیں اور کبھی نہیں بھی ہوتے ہیں، جزیی وہ حکم ہے جو روز قیامت اللہ تعالیٰ فیصلہ کی شکل بندو‍ں کے درمیان کریں گے.
حکیم کا دوسرا معنی بندوں کے درمیان حکمتِ رسا، ان کی تخلیق میں ان کی شریعت میں یعنی اللہ تعالیٰ جو بھی کرتے ہیں اس میں حکمت اور مصلحت ہوتی ہے بسا اوقات وہ ہمیں نظر آتی ہے اور بسا اوقات نظر نہیں آتی ہے.
اس مبارک نام کے سلوکی فوائد یہ ہیں کہ جب انسان مشاہدہ کرتا ہے کہ رب تعالیٰ اپنی تخلیق میں کمال ہیں اس کی تخلیق شاہکار ہے، اسکی حکمتیں نفوس اور بندوں میں عظیم ہیں نتیجتاً انسان ایک پاک اور پرامن و خوبصورت زندگی حاصل کرتا ہے یہ چیز اس کے دل میں اللہ کی محبت پیدا کرتی ہے اللہ کا ڈر اور حیا پیدا ہوتی ہے، اس کے ساتھ ادب اور اخلاص کا تعلق بن جاتا ہے پھر بندہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا طالب ہوتا ہے اس کی ناپسندیدہ چیزوں سے دور ہوتا ہے، بندہ دیکھتا ہے کہ یہ شریعت ان کی جان و مال عزت و آبرو کی محافظ ہے جسے اللہ عظیم و حکیم نے اتاری ہے.
جب اسے ادراک ہوتا ہے کہ اسے دنیا و آخرت دونوں میں ایک پاک زندگی نصیب ہوگی، تب مومن دانش مند اس نام کے معنی اور دیگر ناموں کے معنوں کی روح تک پہنچتا ہے، پھر وہ اسکی لذت محسوس کرتا ہے اسے یہ سعادت دنیا آخرت اور قبر تک حاصل ہوتی ہے، یہ سعادت اسے جنتوں تک لیکر جاتی ہے، ثمرات میں سے یہ بھی ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر سر تسلیم خم ہوتا ہے.
{فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُـوْنَ حَتّـٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَـهُـمْ ثُـمَّ لَا يَجِدُوْا فِىٓ اَنْفُسِهِـمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا}
[ النساء :65]
ترجمہ
سو تیرے رب کی قسم ہے یہ کبھی مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ اپنے اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں پھر تیرے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور خوشی سے قبول کریں.
ثمرات میں سے یہ ہے کہ بندے کو حکمت عطا ہوتی ہے اور جسے حکمت مل جائے اسے بہت بھلائی مل گئی، چونکہ اللہ تعالیٰ ہی حکیم اور حکمت بخشنے والا ہے.

شاركنا بتعليق


اثنا عشر + ستة عشر =




بدون تعليقات حتى الآن.