حضرت صالح علیہ السلام

الأربعاء _21 _أكتوبر _2020AH admin
حضرت صالح علیہ السلام

تیسرا درس :
سلسلہ :قرآنی قصص اور سلوکی فوائد :
حضرت صالح علیہ السلام سام بن نوح کی نسل سے تھے اور آپ کی قوم کا نام ثمود تھا جو کہ عرب عاربہ بائدہ میں سے تھی،ثمود کا مطلب ایسی جگہ ہے جہاں تھوڑا پانی ہو ،اس قوم کے مسکن کو حجر کہا جاتا ہے جو کہ حجاز اور تبوک کے درمیان واقع ہے،مدینہ منورہ سے تین سو اسی کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور مدائن صالح کے نام سے مشہور ہے،یہ قوم عاد کے بعد آئی اللہ تعالی ان کے متعلق فرماتے ہیں:
{وَاذۡكُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَـكُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ عَادٍ وَّبَوَّاَكُمۡ فِى الۡاَرۡضِ تَـتَّخِذُوۡنَ مِنۡ سُهُوۡلِهَا قُصُوۡرًا وَّتَـنۡحِتُوۡنَ الۡجِبَالَ بُيُوۡتًا‌ ۚ فَاذۡكُرُوۡۤا اٰ لَۤاءَ اللّٰهِ وَلَا تَعۡثَوۡا فِى الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِيۡنَ‏}
[سورة الأعراف:74 ]
ترجمہ :(اور یاد کرو جب (قوم) عاد کے بعد اللہ نے تمہیں ان کا جانشین بنایا اور زمین میں تم کو بسایا، تم نرم زمین میں محلات بناتے ہو اور پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے ہو، پس تم اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو)
قوم ثمود کو عاد ثانی بھی کہا جاتا ہے ان کا پیشہ زراعت اور مال مویشی تھا،انہوں نے اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکر کی بجائے اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے پیغمبر جو کہ انہی میں سے تھے،اس کی راست گوئی اور امانت کے وہ گواہ تھے اس پیغمبر کی تکذیب کر دی،اسے جھٹلایا،حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ تعالی کی نعمتیں یاد کروائی،ان کو دعوت دی،ان کی فرمائش پر اللہ تعالی کی عظیم نشانی اونٹنی پیش کیا،اللہ تعالی فرماتے ہیں:
{هواَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَ اسۡتَعۡمَرَکُمۡ فِیۡہَا} [سورة هود:61]
ترجمہ:(اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی نے اس زمین میں تمہیں بسایا ہے)
یعنی اسی نے تمہیں یہ طاقت دی ہے کہ تم زمین میں فصلیں اگاتے ہو،اسکی نرم زمین سے محلات بناتے ہو اور اس کے پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے ہو ،جواب میں صالح علیہ السلام کی قوم نے کہا
{قَالُوْا يَا صَالِحُ قَدْ كُنْتَ فِيْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هٰذَآ ۖ اَتَنْـهَانَـآ اَنْ نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا وَاِنَّنَا لَفِىْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَـآ اِلَيْهِ مُرِيْبٍ} [سورة هود :62 ]
ترجمہ :(انہوں نے کہا اے صالح! اس سے پہلے تو ہمیں تجھ سے بڑی امید تھی، تم ہمیں ان معبودوں کے پوجنے سے منع کرتے ہو جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں اور جس طرف تم ہمیں بلاتے ہو اس سے تو ہم بڑے شک میں ہیں)
یعنی اے نوح ہمیں آپ سے بہت سی امیدیں تھیں آپ نے تو ہماری امیدوں پر پانی پھیر دیا اور ایک اللہ کی طرف بلایا اور باپ دادا کے دین کو چھوڑ دیا، کیا آپ ہمیں ان معبودان کی عبادت سے روکتے ہیں جن کی پوجا ہمارے آبا و اجداد کرتے تھے؟حضرت صالح علیہ السلام نے مختلف اسالیب دعوت اپناتے ہوئے قوم کو اللہ کی طرف بلایا،انہیں سابقہ مجرمین کے انجام سے ڈرایا چونکہ قوم عاد ان سے پہلے تھی اور اس قوم کی ہلاکت سے متعلق یہ جانتے تھے،قوم ثمود کو معلوم تھا کہ کس طرح سخت آندھی کا عذاب قوم عاد پر نازل ہوا ،کس طرح ان کے سر ان کے جسموں سے الگ ہوئے تھے،حضرت صالح علیہ السلام نے قوم کو وعظ فرمائی،انہیں ڈرایا کہ کیا تمہیں یہ خوش فہمی ہے کہ تمہیں ان نعمتوں میں چھوٹ دی جائیگی،اسی طرح حضرت صالح علیہ السلام نے وعظ و نصیحت اور نرمی کا اسلوب بھی اختیار کیا اور فرمایا:
{قَالَ يَا قَوْمِ اَرَاَيْتُـمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَيِّنَـةٍ مِّنْ رَّبِّىْ وَاٰتَانِىْ مِنْهُ رَحْـمَةً فَمَنْ يَّنْصُرُنِىْ مِنَ اللّـٰهِ اِنْ عَصَيْتُهٝ ۖ فَمَا تَزِيْدُوْنَنِىْ غَيْـرَ تَخْسِيْـرٍ }
[سورة هود :63]
ترجمہ:(صالح نے کہا اے میری قوم! بھلا دیکھو تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے کوئی کھلی دلیل رکھتا ہوں اور اس کی طرف سے میرے پاس رحمت بھی آ چکی ہو پھر اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو مجھے اس سے کون بچا سکتا ہے، پھر تم مجھے نقصان کے سوا اور کیا دے سکو گے)
ان تمام اسالیب دعوت کے باوجود قوم کی طرف سے حضرت صالح علیہ السلام کی تکذیب کی گئی،ان کا مذاق اڑایا گیا،انہیں جادوگر کہا گیا، اور یہ ان تمام اقوام کا وطیرہ رہا ہے جنہوں نے انبیاء کرام کی تکذیب کی ہے۔
{كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِـمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُـوْنٌ }
[سورة الذاريات:52]
ترجمہ:(اسی طرح ان سے پہلوں کے پاس بھی جب کوئی رسول آیا تو انہوں نے یہی کہا کہ یہ جادوگر یا دیوانہ ہے)
{مَّا يُقَالُ لَكَ اِلَّا مَا قَدْ قِيْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ ۚ اِنَّ رَبَّكَ لَـذُوْ مَغْفِرَةٍ وَّّذُوْ عِقَابٍ اَلِـيْمٍ}
[سورة فصلت :43]
ترجمہ:(آپ سے وہی بات کہی جاتی ہے جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہی گئی تھی، بے شک آپ کا رب بخشنے والا اور دردناک عذاب دینے والا بھی ہے)
قوم نے حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت کو جھٹلایا اور حجت کے طور پر آبا و اجداد کی تقلید کو پیش کیا اور یہ گمان کیا کہ ان کے راستے سے انحراف گمراہی ہے،جس طرح ابو طالب کے ساتھ ہوا جب موت کا وقت قریب آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سرہانے آکر بیٹھ گئے اور فرمایا اے میرے چاچا آپ بس اس کلمے کو پڑھ لیجئے لیکن وہاں عبداللہ بن امیہ اور ابو جھل بھی تھے انہوں نے ابو طالب کو آبا و اجداد کے دین کا واسطہ دیا ان سے کہا کہ کیا آپ عبدالمطلب کی ملت سے انحراف کریں گے،چنانچہ ابو طالب کا انتقال شرک پر ہوگیا،بات چل رہی تھی قوم ثمود کی قوم نے حضرت صالح علیہ السلام سے اونٹنی کا مطالبہ کیا آپ نے فرمایا کہ اگر میں اللہ تعالی کی اس نشانی کو نکالوں تو تم ایمان لاوگے؟ قوم نے کہا ہاں ہم ایمان لائیں گے،صالح علیہ السلام نے دو رکعات نماز پڑھ کر دعا کی پہاڑ پھٹ گیا اور اس کے درمیان سے دس ماہ کی گابھن اونٹنی نکل آئی،قوم کے کچھ لوگوں نے ایمان لایا لیکن اکثریت اپنی سابقہ ہٹ دھرمی پر قائم رہی،اونٹنی کا پہاڑ سے نکلنا اور اس کا دس ماہ کا گابھن ہونا یہ تفسیری روایات میں مذکور ہے البتہ قرآن و سنت میں یہ تفاصیل نہیں ہیں وہاں صرف اونٹنی کا ذکر ہے،اب طے یہ ہوا کہ ایک دن قوم کے جانور کنویں سے پانی پئیں گے اور ایک دن یہ اونٹنی،اسے آزاد چرنے دیا جائے گا،لیکن ان سے یہ نشانی برداشت نہ ہوئی اور قوم کے ایک سردار نے اونٹنی کو ذبح کر ڈالا،قوم کا تکبر ،انکار اور ضلالت مزید بڑھ گئی انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام سے کہا
{ فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَـآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِيْنَ }
[سورة هود:32]
ترجمہ :(اب لے آ جو تو ہم سے وعدہ کرتا ہے اگر تو سچا ہے۔)
اونٹنی کو ذبح کرنے کے بعد انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کے قتل کا منصوبہ تیار کیا،
{قَالُوْا تَقَاسَـمُوْا بِاللّـٰهِ لَنُـبَيِّتَنَّهٝ وَاَهْلَـهٝ ثُـمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِـيِّهٖ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ اَهْلِـهٖ وَاِنَّا لَصَادِقُوْنَ}
[سورة النمل:49]
ترجمہ:(کہنے لگے آپس میں اللہ کی قسم کھاؤ کہ صالح اور اس کے گھر والوں پر شب خوں ماریں پھر اس کے وارث سے کہہ دیں کہ ہم تو اس کے کنبہ کی ہلاکت کے وقت موجود ہی نہ تھے اور بے شک ہم سچے ہیں)
اور پھر
{وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ}
[سورة النمل:50]
ترجمہ:
(انہوں نے یہ چال چلی اور ہم نے بھی ایک چال اس طرح چلی کہ ان کو پتہ بھی نہ لگ سکا۔)
چنانچہ حضرت صالح علیہ السلام نے قوم کو بتایا کہ آسمان سے ایک سخت چیخ اور زمین سے جھٹکے کا انتظار کرو
{فَاَخَذَتْـهُـمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِىْ دَارِهِـمْ جَاثِمِيْنَ}
[سورة الأعراف:78 ]
ترجمہ:(پس انہیں زلزلہ نے آ پکڑا، پھر صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے رہ گئے۔)
{كَاَنْ لَّمْ يَغْنَوْا فِيْـهَا ۗ اَلَآ اِنَّ ثَمُوْدَ كَفَرُوْا رَبَّـهُـمْ ۗ اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَ}
[سورة هود:68]
ترجمہ :
(گویا کہ کبھی وہاں رہے ہی نہ تھے، خبردار! ثمود نے اپنے رب کا انکار کیا تھا، خبردار! ثمود پر پھٹکار ہے)
{وَاَخَذَ الَّـذِيْنَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِى دِيَارِهِـمْ جَاثِمِيْنَ}
[سورة هود:67]
ترجمہ :(اور ان ظالموں کو ہولناک آواز نے پکڑ لیا پھر صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے رہ گئے)
حضرت صالح علیہ السلام کے قصے میں دروس و عبر:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کے میدان میں اترے۔ لوگوں نے ثمودیوں کے گھروں کے پاس ڈیرے ڈالے اور انہی کے کنوؤں کے پانی سے آٹے گوندھے، ہانڈیاں چڑھائیں تو آپ نے حکم دیا کہ سب ہانڈیاں الٹ دی جائیں اور گندھے ہوئے آٹے اونٹوں کو کھلا دیئے جائیں۔ پھر فرمایا: یہاں سے کوچ کرو اور اس کنوئیں کے پاس ٹھہرو جس سے صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور فرمایا: آئندہ عذاب والی بستیوں میں پڑاؤ نہ کیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی عذاب کے شکار تم بھی بن جاؤ۔ [صحیحین]
آج کے دور میں ان جگہوں کو سیر و سیاحت کی جگہ بنا کر ان جگہوں میں تصویریں بنانا جہالت ہے۔
دروس میں سے یہ بھی ہے کہ اندھی تقلید عقل کی چھٹی کا نام ہے،انسان کسی کے علم،شخصیت،مقام کی وجہ سے اس کی تقلید کرے یا پھر گھر میں والدین کی تقلید کرے یہ جانتے ہوئے کہ اس معاملے میں والدین کا موقف جہالت پر مبنی ہے،اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ماحول کا اثر ہوتا ہے اور کچھ لوگوں کی رائے اثر و قبول رکھتی ہے لیکن ان سب میں اندھی تقلید کا مطلب عقل کی چھٹی ہے،ہمارے اس زمانے میں کچھ طلاب علم فقہی مذاہب اور دعوتی جماعتوں کے متعلق بھی اسی تعصب اور تقلید کے شکار ہوئے ہیں،یہ جانتے ہوئے بھی کہ مخالف کا موقف درست اور کتاب و سنت کے مطابق ہے،یہ سب اندھی تقلید ہے شریعت نے ہمیں عدم تعصب اور عدم تقلید کی دعوت دی ہے،حق کے مخالف ہمارے والدین کی رائے ہو یا کسی اور ہستی کی اسے ترک کیا جائے گا۔ہر شخص یہ ذہن میں رکھے کہ روز قیامت ہم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا؟
{وَلَن يَنفَعَكُمُ الْيَوْمَ إِذ ظَّلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ}
[سورة الزخرف:39]
ترجمہ :(اور آج یہ بات تمھیں ہرگز نفع نہ دے گی، جب کہ تم نے ظلم کیا کہ بے شک تم (سب) عذاب میں شریک ہو)
دروس و عبر میں سے یہ بھی ہے کہ ہر زمانہ اور جگہ میں اہل باطل کا راستہ ایک رہا ہے،تکبر ،عناد اپنی قوت کا زعم اور حق کا انکار .
دروس و عبر میں سے یہ بھی ہے کہ
جب اللہ تعالی کا عذاب آتا ہے تو معلوم پڑتا ہے کہ عیش و عشرت،لذات و حیات اور عذاب کے درمیان وقت گویا بل بھر تھا آنکھ جھپکنے کے برابر ،دار ابتلا و امتحان اور دار جزاء کے درمیان کوئی لمبا دورانیہ نہیں ہے۔
ہے کوئی عبرت پکڑنے والا؟!

شاركنا بتعليق


خمسة × ثلاثة =




بدون تعليقات حتى الآن.