حضرت ھود علیہ السلام

الثلاثاء _3 _نوفمبر _2020AH admin
حضرت ھود علیہ السلام

چوتھا درس بسلسلہ:
قرآنی قصص اور سلوکی فوائد ۔
آج ہم اللہ کے نبی حضرت ھود علیہ السلام پر بات کریں گے،وہ پہلے عربی رسول تھے عربی رسول چار ہیں ھود علیہ السلام، صالح علیہ السلام،شعیب علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم،ھود علیہ السلام کے قبیلے کا نام عاد تھا:
{وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ}
[سورة الأحقاف:21]
ترجمہ :اور قوم عاد کے بھائی کا ذکر کر جب اس نے اپنی قوم کو (وادی) احقاف میں ڈرایا اور اس سے پہلے اور پیچھے کئی ڈرانے والے گزرے کہ سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کرو، بے شک میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.
احقاف عمان اور حضرموت کے درمیان ریتیلے پہاڑ ہیں جس جگہ یہ قوم آباد تھی اسے ‘شھر ‘ کہا جاتا ہے،یہ قوم عرب عاربہ بائدہ تھی،انہیں میں سے قوم ثمود،قوم صالح اور قوم ھود (عاد) تھیں،نوح علیہ السلام کے بعد عاد پہلی قوم تھی جس نے بتوں کی پرستش شروع کی،بت پرستی نوح علیہ السلام کی اولاد سے ہوتی ان تک پہنچی یہ لوگ سام بن نوح کی نسل سے تھے،یہ بات مشہور ہے کہ نوح علیہ السلام اور ھود علیہ السلام کے درمیان کوئی پیغمبر نہیں گزرا ہے،چونکہ اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کے تذکرے کے فوری بعد ان کا ذکر کیا ہے:
{وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً ۖ فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}
[سورة الأعراف:69]
ترجمہ :اور یاد کرو جب کہ تمہیں قوم نوح کے بعد جانشین بنایا اور ڈیل ڈول میں تمہیں زیادہ پھیلاؤ دیا، سو اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔
ھود علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت و نصیحت کی،انہیں یاد دلایا جو کچھ قوم نوح کے ساتھ ہوا تھا وہ قوم جانتی تھی کہ جب قوم نوح کفر و سرکشی میں حد سے بڑھ گئی تو کس طرح اللہ تعالی نے انہیں ہلاک کر دیا،قوم عاد کی کچھ تخلیقی صفات تھیں جیسے کہ وہ مضبوط اور بڑے جسموں والے تھے:
{وَّزَادَكُمْ فِى الْخَلْقِ بَصۜـْـطَةً}
اور فرمایا :
{فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ}
[سورة فصلت:15]
ترجمہ :
پس قوم عاد نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور کہا ہم سے طاقت میں کون زیادہ ہے، کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ اللہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے طاقت میں کہیں بڑھ کر ہے، وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۔
قوم عاد نے اپنی طرف بھیجے گئے نبی ھود علیہ السلام کے ساتھ مختلف اقسام کا بغض و عناد روا رکھا،ان کا مذاق اڑایا انہیں بیوقوف کہا،انکی بعثت کا انکار کیا،اپنی قوت و طاقت پر گھمنڈ کیا پیغمبر کو جھٹلایا ،ھود علیہ السلام نے کہا :
{اِنِّـىْ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللّـٰهِ رَبِّىْ وَرَبِّكُم ۚ مَّا مِنْ دَآبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌ بِنَاصِيَتِـهَا ۚ اِنَّ رَبِّىْ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍ}
[سورة هود:56]
ترجمہ:میں نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے، کوئی بھی زمین پر ایسا چلنے والا نہیں کہ جس کی چوٹی اس نے نہ پکڑ رکھی ہو، بے شک میرا رب سیدھے راستے پر ہے۔
یعنی تمام مخلوقات انس و حیوانات تک سب کو اللہ تعالی چلاتا ہے بغیر کسی ظلم و زیادتی کے۔
قرآن و سنت کے نصوص میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں ملتا ہے کہ حضرت ھود علیہ السلام کو کون سی نشانیاں اور معجزات عطا کئے گئے تھے۔
{ وَتِلْكَ عَادٌ ۖ جَحَدُوْا بِاٰيَاتِ رَبِّـهِـمْ وَعَصَوْا رُسُلَـهٝ وَاتَّبَعُـوٓا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ}
[سورة هود:59]
ترجمہ :اور یہ عاد تھے، اپنے رب کی باتوں سے منکر ہوئے اور اس کے رسولوں کو نہ مانا اور ہر ایک جبار سرکش کا حکم مانتے تھے۔
اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ ھود علیہ السلام کو کون سے معجزات عطا کئے گئے تھے یہ کتاب ہدایت و دعوت اور منہج ہے،اس میں مکمل توحید کی تکرار ہے،شرک و بدعات اور گناہوں سے ڈرایا گیا ہے جب کہ عذاب الہی کی تنبیہ کی گئی ہے جنتوں کی عظمتوں کا بیان ہے،ھود علیہ السلام اپنی قوم کو غیر معلوم مدت تک دعوت دیتے رہے انہیں اللہ تعالی کے عذاب کی وعید سنایا لیکن قوم نے عذاب مانگنے کی جلدی کر ڈالی:
{قَالُـوٓا اَجِئْتَنَا لِتَاْفِكَنَا عَنْ اٰلِـهَتِنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِيْنَ }
[سورة الأحقاف:22]
ترجمہ:انہوں نے کہا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ تو ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا دے پس ہم پر وہ (عذاب) لے آ جس کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے اگر تو سچا ہے۔
پس هود علیہ السلام نے کھڑے کھڑے اپنے رب کو پکارا:
{قَالَ رَبِّ انْصُرْنِىْ بِمَا كَذَّبُوْنِ}
[سورة المؤمنون:26]
ترجمہ :
کہا اے میرے رب تو میری مدد کر کیونکہ انہو ں نے مجھے جھٹلایا ہے۔
اللہ تعالی نے جواب دیا :
{قَالَ عَمَّا قَلِيْلٍ لَّيُصْبِحُنَّ نَادِمِيْنَ}
[سورة المؤمنون:40]
ترجمہ :
فرمایا تھوڑی دیر کے بعد یہ خود نادم ہوں گے۔
تین سال تک ان پر بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں برسایا گیا وہ شدید خشک سالی کے شکار ہوگئے پھر انہوں نے دیکھا بادل کا ایک ٹکڑا ان کی وادی کی طرف آ رہا ہے کہا یہ پانی سے بھرا بادل اب ہم پر برسے گا اللہ تعالی نے جواب دیا :
{فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِيَتِـهِـمْۙ قَالُوْا هٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُـم بِهٖ ۖ رِيْحٌ فِيْـهَا عَذَابٌ اَلِـيْـمٌ}
[سورة الأحقاف:24]
ترجمہ:
پھر جب انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ ایک ابر ہے جو ان کے میدانوں کی طرف بڑھا چلا آ رہا ہے، کہنے لگے کہ یہ تو ابر ہے جو ہم پر برسے گا، (نہیں) بلکہ یہ وہی ہے جسے تم جلدی چاہتے تھے یعنی آندھی جس میں دردناک عذاب ہے۔
اور پھر
{وَاَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِـرِيْـحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ}
[سورة الحاقة:6]
ترجمہ :
اور لیکن قوم عاد، سو وہ ایک سخت آندھی سے ہلاک کیے گئے۔
{سَخَّرَهَا عَلَيْـهِـمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَّّثَمَانِيَةَ اَيَّامٍۙ حُسُوْمًا فَتَـرَى الْقَوْمَ فِيْـهَا صَرْعٰى كَاَنَّـهُـمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ}
[سورة الحاقة:7]
ترجمہ:
وہ ان پر سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار چلتی رہی (اگر تو موجود ہوتا)، اس قوم کو اس طرح گرا ہوا دیکھتا کہ گویا کہ گھری ہوئی کھجوروں کے تنے ہیں۔
ان کے کٹے جسموں کو کھجور کے تنوں سے تشبیہ دی گئی کہ جن کے اوپر والا حصہ کٹا ہو ،انہیں تیز آندھی نے اوپر اٹھایا اور پھر زور سے زمین پر پٹخ دیا،ان کے سر بریدہ ہوئے،گویا انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا،تیز اور یک لخت ٹھنڈی آندھی نے ان کا کام تمام کر دیا:
{وَفِىْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَيْـهِـمُ الرِّيْحَ الْعَقِـيْمَ}
[سورة الذاريات:41]
ترجمہ :
اور قوم عاد میں بھی (عبرت ہے) جب ہم نے ان پر سخت آندھی بھیجی۔
‘ریح العقیم’ سے مراد ایسی آندھی ہوتی ہے جس میں کوئی خیر نہیں ہوتی ہے،یہ آندھی بارش کی نوید نہیں سناتی ہے،بلکہ اس میں موت اور تباہی ہوتی ہے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آسمان کا رنگ بدلا ہوا دیکھتے تو اٹھ کر چلنے لگ جاتے،آپ گھر میں داخل ہوتے اور باہر نکلتے یعنی بے چین ہوتے خوف سے،لیکن جب بارش ہوتی آپ کے چہرہ انور پر خوشی دیدنی ہوتی،میں نے آپ سے پوچھا کہ اللہ کے رسول اسکی وجہ کیا ہے آپ نے فرمایا کہ شاید کہ یہ وہی آندھی ہو جس کے متعلق قوم عاد نے کہا تھا یہ بادل ہم پر برسیں گے۔ لیکن اللہ تعالی نے جواب دیا :
{وَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّيْنَا هُوْدًا وَّالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مَعَهٝ بِرَحْـمَةٍ مِّنَّاۚ وَنَجَّيْنَاهُـمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِيْظٍ}
[سورة ھود :58]
ترجمہ:
اور جب ہمارا حکم پہنچا تو ہم نے ہود کو اور انہیں جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی رحمت سے بچا لیا، اور ہم نے انہیں سخت عذاب سے نجات۔
اللہ تعالی نے قوم ھود کے ان تمام افراد کو ہلاک کیا جنہوں نے ان کی طرف بھیجے نبی کا انکار کیا اور جھٹلایا اور ان سب مومنوں کو نجات دی جو ایمان لے آئے۔
یہ مختصر سا نچوڑ ھود علیہ السلام اور ان کی قوم عاد کے بارے میں تھا.
اس قصے میں سبق اور عبرتیں
دعوت دین میں صبر اور نرمی اختیار کرنا ایک داعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ جن کو دعوت دے رہا ہے ان کے ساتھ کمال شفقت و محبت اور اپنائیت کا رویہ اختیار کرے،چونکہ دعوت گفتار اور کردار دونوں سے دی جاتی ہے،قوم عاد نے جب حضرت ھود علیہ السلام کو بیوقوف ہونے کا الزام دیا تب انہوں نے اپنائیت سے کہا اے میری قوم میرے میں بیوقوفی نہیں ہے.
غرور اور تکبر کرنے والوں کے انجام بد سے سبق حاصل کرنا کہ قوم عاد نے یہ گھمنڈ کیا کہ ہم سے زیادہ کون طاقت ور ہوسکتا ہے.
سبق یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ھود کو بھیجا یہ ایک خوبصورت اسلوب ہے،اخوت و بھائی چارہ دو طرح کا ہوتا ہے ایک مٹی اور نسل و نسب کی اخوت یہی اخوت یہاں مراد ہے اور یہ اخوت قوم نوح،قوم صالح اور قوم ھود سے متعلق اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے جب کہ اخوت کی دوسری قسم اسلامی اخوت ہے،اور یہ اخوت صرف مومنوں کے درمیان ممکن ہے،
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُـوْنَ اِخْوَةٌ}
[سورة الحجرات:10]
ترجمہ :
(بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں )
سبق یہ بھی ہے کہ توکل علی اللہ کی شان بہت عظیم و بلند ہے یہی توکل تمام انبیاء کرام کی کشتی ہے،زاد راہ ہے،جب جب وہ اپنی قوم کی طرف سے آزمائش میں ڈالے گئے ہیں انہوں نے توکل کیا ہے،توکل علی اللہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ہی سے مدد طلب کی جائے ظاہری اسباب اختیار کرتے ہوئے صدق دل سے اللہ پر بھروسہ کرنا توکل ہے،ھود علیہ السلام کے توکل کا یہ عالم تھا کہ اپنی قوم سے کہا :
{مِنْ دُوْنِهٖ ۖ فَكِـيْدُوْنِىْ جَـمِيْعًا ثُـمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ}
[سورة هود:55]
ترجمہ :
(اس کے سوا، سو تم سب مل کر میرے حق میں برائی کرو پھر مجھے مہلت نہ دو۔)
یہ ان کا کمال توکل اور یقین تھا۔
اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق سے نوازے.

شاركنا بتعليق


8 − اثنان =




بدون تعليقات حتى الآن.