کہا میں جہانوں کے پروردگار کا فرما بردار ہوں
الأربعاء _21 _أكتوبر _2020AH adminآٹھواں درس :
شیخ احمد مقبل:
ھارون الرشید کی محفل میں ابو معاویہ ضریر نے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بیان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :”آدم علیہ السلام اور موسی علیہ السلام کے درمیان بحث ہوئی۔۔” اہل محفل میں سے ایک شخص نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے جب کہ آدم علیہ السلام اور موسی علیہ السلام کے درمیان کئی زمانے ہیں،ھارون الرشید نے اس شخص کو ڈانٹا کہ وہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان کر رہا ہے اور تم کہتے ہو یہ کیسے ممکن ہے؟ ھارون الرشید یہ بات دھراتے رہے یہاں کہ وہ آدمی خاموش ہوگیا،شیخ ابو اسماعیل صابونی رحمہ اللہ اس واقعے کے بعد لکھتے ہیں بالکل اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں سے متعلق رویہ اور تعظیم ہونی چاہئے، قبول،تسلیم اور تصدیق ہونی چاہئے،اور جو کوئی اعتراض کرے ہارون الرشید کی طرح اس اعتراض کرنے والے کی بات کا انکار ہونا چاہئے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد تمام اخبار و احادیث کو قبول کیا جانا چاہئے۔
امام ذہنی رحمہ اللہ نے تاریخ اسلام میں حافظ محمد بن طاھر کا یہ کلام نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو اسحاق حبال سے سنا وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے شیخ کی محفل میں یہ حدیث پڑ رہے تھے۔
《لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَّاتٌ》
(رواہ الشیخان )
کہ
“جنت میں چغل خور داخل نہیں ہوگا “
اب لفظ قتات کے کئی معانی ہیں ان میں سے ایک گھاس کی رسی کو بل دینا ہے،مجلس میں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا اس کا یہ کاروبا تھا وہ رونے لگا اور کہا میں نے آج سے توبہ کرلی،اسے بتایا گیا کہ اس سے مقصود وہ نہیں جو تم سمجھے ہو بلکہ اس سے مراد چغلی ہے کہ لوگوں کی باتیں فساد کی نیت سے ایک دوسرے تک پہنچانے والا ہے۔تب وہ شخص خوش ہوا اور رونا بند کر دیا ،اس واقعے سے اندازہ لگائیں کہ سلف کے ہاں کتنی حساسیت تھی کتنی جلدی وہ قبول کرتے تھے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاوی میں سلف سے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان پر اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت یہ تھی کہ وہ کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنے والے تھے،وہ اصول کہ جس پر صحابہ کرام اور تابعین عظام سب متفق تھے یہ تھا قرآن و سنت سے تعارض کرتے کسی کی بات کو قبول نہیں کیا جائے گا خواہ وہ اپنی رائے،عقل ،ذوق،قیاس ،وجدان کسی بھی اعتبار سے بات کرے۔ان سے یہ ثابت ہے قطعی براہین اور واضح نشانیوں کے ساتھ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت اور دین حق کے ساتھ آئے ہیں اور قرآن مجید اس راہ کی طرف راہ نمائی کرتا ہے جو سب سے سیدھی ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:اللہ تعالی کی بندگی،اللہ تعالی پر ایمان ،اسکی کتابوں اور رسولوں پر ایمان کی عمارت ہی تسلیم پر قائم ہے،اور اوامر و نواہی کی حکمتوں سے متعلق سوالات نہ کرنے پر قائم ہے،چنانچہ کسی ایسی امت کا اللہ تعالی نے تذکرہ نہیں کیا کہ انہوں نے ایمان لانے کے بعد امر و نہی کی حکمتوں سے متعلق سوال کئے ہوں،بلکہ انہوں نے سر تسلیم خم کیا ہے،جن حکمتوں کی معرفت ہوئی سو ہوئی جن کی معرفت نہ ہوئی وہ ایمان لانے کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں،امت محمدیہ سابقہ امتوں کے مقابل علم و معارف میں کامل و اکمل ہے چنانچہ اس نے بھی اپنے رسول سے حکمتوں کے متعلق سوال نہیں کئے،کہ اللہ تعالی نے یوں اور یہ حکم کیوں دیا،اس سے کیوں روکا؟ اس لئے کہ یہ ایمان اور تسلیم کے متضاد ہے۔
اللہ تعالی ہمیں اپنے ان چنیدہ بندوں میں سے کر دیں جنہوں نے اللہ تعالی کے حکموں کی تصدیق کی اوامر کو بجا لایا،نواہی سے اجتناب کیا اور سراپا تسلیم خم کیا.
شاركنا بتعليق
بدون تعليقات حتى الآن.