حضرت موسی علیہ السلام
الثلاثاء _9 _فبراير _2021AH adminبسلسلہ قرآنی قصص اور فوائد سلوکیہ
چودھواں درس
حصہ دوم :
حضرت موسی علیہ السلام کا اللہ تعالی سے ملاقات کیلئے مقامِ وعدہ پر جانا ،اللہ تعالی فرماتے ہیں:
{وَاِذْ وَاعَدْنَا مُوْسٰٓى اَرْبَعِيْنَ لَيْلَـةً ثُـمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهٖ وَاَنْتُـمْ ظَالِمُوْنَ○ثُـمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ○وَاِذْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ}
[سورة البقرة:51،52،53]
ترجمہ
اورجب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ کیا، پھر اس کے بعد تم نے بچھڑا بنا لیا، حالانکہ تم ظالم تھے۔پھر اس کے بعدبھی ہم نے تمہیں معاف کر دیا تاکہ تم شکر کرو۔اورجب ہم نے موسیٰ کو کتاب اورقانون فیصل دیا تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
موسی علیہ السلام مقام وعدہ کیلئے نکلے کہ جہاں اللہ تعالی نے تورات نازل فرمانی تھی جو کہ موسی علیہ السلام اور اس کی قوم کیلئے کتاب ہدایت تھی موسی علیہ السلام نے جاتے ہوئے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو اپنا جانشین بنا کر قوم کے پاس چھوڑ دیا حضرت موسی علیہ السلام کے مقام وعدہ کی طرف نکلنے کے بعد سامری نامی ایک شخص بنی اسرائیل کے پاس آیا جو بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا اس شخص کے ساتھ کچھ سونا تھا یہ سونا بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں نے فراعنہ اقباط سے چوری کیا تھا اور موسی علیہ السلام کے حکم پر دریا میں پھینک دیا کہ یہ ان کے لئے جائز نہیں تھا یہ سونا سامری کے ہاتھ لگا اس نے یہ سونا جمع کیا اور ایک بچھڑا بنا ڈالا اس بچھڑے میں پچھلے حصے سے ہوا داخل ہوتی تھی اور منہ سے آواز نکلتی تھی بنی اسرائیل نے جب بچھڑا دیکھا تو انہیں اس عجیب و غریب شے پر حیرت ہوئی انہوں نے سامری سے پوچھا یہ کیا شے ہے؟ سامری نے کہا یہ موسی علیہ السلام کا خدا ہے ادھر موسی علیہ السلام مقام وعدہ پر جاتے ہوئے عزم کرچکے تھے کہ تیس دنوں کا روزہ رکھیں گے تاکہ روزے کی حالت میں اللہ تعالی سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوجائے پھر یہ سوچ کر روزہ افطار کرلیا کہ روزے کی حالت میں انسان کے منہ سے بو سی آتی ہے رب تعالی سے ہمکلام ہوتے ہوئے مناسب نہیں لگے گا کہ منہ سے بو آئے اللہ تعالی کے نزدیک تو روزہ دار کے منہ سے آنے والی بو مسک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند و پاکیزہ ہے لہذا موسی علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اب تیس کی بجائے چالیس دن مکمل کریں اور روزے کی حالت میں ہی اللہ تعالی سے ہم کلام ہوں،چونکہ موسی علیہ السلام تیس دن کیلئے گئے تھے لیکن چالیس دن انہیں مقام وعدہ پر رکنا پڑا پیچھے سامری نے پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ موسی علیہ السلام واپس نہ آئے چنانچہ بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی،ھارون علیہ السلام نے قوم کو بہت سمجھایا اور خوف دلایا لیکن قوم نے ان کی ایک نہ سنی،موسی علیہ السلام چالیس دن بعد لوٹے اور قوم کو شرک کرتے پایا تو سخت خفا ہوئے اور اپنے بھائی ھارون علیہ السلام کو مخاطب کرکے انہیں ملامت کی کہ :
{قَالَ يَا هَارُوْنُ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَيْتَـهُـمْ ضَلُّوْا○اَلَّا تَـتَّبِعَنِ ۖ اَفَـعَصَيْتَ اَمْرِىْ○
قَالَ يَا ابْنَ اُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْيَتِىْ وَلَا بِرَاْسِىْ ۖ اِنِّـىْ خَشِيْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ وَلَمْ تَـرْقُبْ قَوْلِىْ}
[سورةطه:92,93,94]
ترجمہ:
کہا اے ہارون تمہیں کس چیز نے روکا جب تم نے دیکھا تھا کہ وہ گمراہ ہو گئے ہیں۔تو میرے پیچھے نہ آیا، کیا تو نے بھی میری حکم عدولی کی۔کہا اے میری ماں کے بیٹے میری داڑھی اور سر نہ پکڑ، بے شک میں ڈرا اس سے کہ تو کہے گا تو نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میرے فیصلہ کا انتظار نہ کیا۔
پھر حضرت موسی علیہ السلام نے سامری سے پوچھا کہ تیرا کیا معاملہ ہے ؟
{قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَا سَامِرِىُّ○قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُـهَا وَكَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِىْ نَفْسِىْ}
[سورة طه:95,96]
ترجمہ
کہا اے سامری تیرا کیا معاملہ ہے۔کہا میں نے وہ چیز دیکھی تھی جو دوسروں نے نہ دیکھی پھر میں نے رسول کے نقشِ قدم کی ایک مٹھی مٹی میں لے کر ڈال دی اور میرے دل نے مجھے ایسی ہی بات سوجھائی۔
اس کلام کا مطلب یہ ہے کہ جب فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کرنے کا وقت آ پہنچا حضرت جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں موقعے پر موجود تھے موسی علیہ السلام نے سمندر میں عصا مارا جبرائیل علیہ السلام نے انہیں روکا کہ آگے بڑھنے دیں جلدی نہ کریں موسی علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام کے حکم کی تعمیل کی یہ گفتگو سامری سن رہا تھا اس نے جان لیا کہ جس شخص کی باتوں کو وقت کا پیغمبر موسی علیہ السلام مان رہے ہیں کوئی عام آدمی نہیں ہوسکتا ہے چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کے پاوں زمین پر جس جگہ پڑے تھے وہاں سے سامری نے مٹی اٹھائی اور اس مٹی کو بچھڑے میں ڈال دیا یہی وجہ تھی کہ بچھڑے نے آواز نکالی،موسی علیہ السلام نے قوم کو سامری کی حقیقت بتا دی اس کے بعد سامری سے کہا :
{قَالَ فَاذْهَبْ فَاِنَّ لَكَ فِى الْحَيَاةِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ ۖ وَاِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَهٝ ۖ وَانْظُرْ اِلٰٓى اِلٰـهِكَ الَّـذِىْ ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ۖ لَّنُحَرِّقَنَّهٝ ثُـمَّ لَنَنْسِفَنَّهٝ فِى الْيَـمِّ نَسْفًا}
[سورة طه:97]
ترجمہ
کہا بس چلا جا تیرے لیے زندگی میں یہ سزا ہے کہ تو کہے گا ہاتھ نہ لگانا، اور تیرے لیے ایک وعدہ ہے جو تجھ سے ٹلنے والا نہیں، اور تو اپنے معبود کو دیکھ جس پر تو جما بیٹھا تھا، ہم اسے ضرور جلا دیں گے پھر اسے دریا میں بکھیر کر بہا دیں گے۔
موسی علیہ السلام نے سامری کو بتا دیا کہ اب اسکی سزا یہ ہے کہ نہ تو لوگوں میں سے کوئی اسے چھو لیگا اور نہ ہی وہ لوگوں کو چھو سکے گا اس کے بعد بچھڑے کو جلایا اور دریا میں بہا دیا تاکہ قوم جان لے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود باطل نفع نقصان، زندگی اور موت کا مالک نہیں ہے،پھر موسی علیہ السلام نے قوم کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا:
{فَرَجَعَ مُوْسٰٓى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ۚ اَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ اَمْ اَرَدْتُّـمْ اَنْ يَّحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَخْلَفْتُـمْ مَّوْعِدِىْ}
[سورة طه:86]
ترجمہ
پھر موسٰی اپنی قوم کی طرف غصہ میں بھرے ہوئے افسوس کرتے ہوئے لوٹے، کہا اے میری قوم کیا تمہارے رب نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا، پھر کیا تم پر بہت زمانہ گزر گیا تھا یا تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے رب کا غصہ نازل ہو تب تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی۔
قوم نے جواب دیا کہ ہم نے یہ وعدہ خلافی اپنے اختیار اور خوشی سے نہیں کی ہے بلکہ ہمیں تو سامری نے گمراہ کیا تھا.
بنی اسرائیل کی توبہ
بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پوجا سے توبہ کرلی پس اللہ تعالی نے ان پر لازم کیا کہ توبہ کیلئے وہ اپنے نفسوں کو قتل کریں.
{فَاقْتُلُوٓا اَنْفُسَكُمْ ذٰلِكُمْ خَيْـرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ اِنَّهٝ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْـمُ}
[سورة البقرة:54]
ترجمہ
پھر اپنے آپ کو قتل کرو، تمہارے لیے تمہارے خالق کے نزدیک یہی بہتر ہے، پھر اس نے تمہاری توبہ قبول کر لی، بے شک وہی بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے۔
چنانچہ انہوں نے حکم الہی پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو قتل کیا کہا جاتا ہے کہ اس جگہ پر ستر ہزار لوگ قتل ہوئے پھر قوم نے موسی علیہ السلام سے رجوع کرتے پوچھا کہ کیا اللہ تعالی نے ہماری توبہ قبول کرلی ہے؟ موسی علیہ السلام نے فرمایا ہاں تمہاری توبہ قبول ہوچکی ہے،بعد ازاں موسی علیہ السلام اپنی قوم کے ستر چنیدہ افراد کو لیکر مقام وعدہ کی طرف نکلے تاکہ قوم کے یہ منتخب لوگ اللہ تعالی کے آگے قوم کی طرف سے معذرت کریں اور معافی مانگ لیں،اس کے بعد جو کچھ ہوا قرآن مجید نے نقشہ کھینچا ہے:
{وَاخْتَارَ مُوْسٰى قَوْمَهٝ سَبْعِيْنَ رَجُلًا لِّمِيْقَاتِنَا ۖ فَلَمَّآ اَخَذَتْـهُـمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَـهُـمْ مِّنْ قَبْلُ وَاِيَّاىَ ۖ اَتُـهْلِكُنَا بِمَا فَـعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّا ۖ اِنْ هِىَ اِلَّا فِتْنَتُكَۖ تُضِلُّ بِـهَا مَنْ تَشَآءُ وَتَـهْدِىْ مَنْ تَشَآءُ ۖ اَنْتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَـمْنَا ۖ وَاَنْتَ خَيْـرُ الْغَافِـرِيْنَ}
[سورة الأعراف:155]
ترجمہ
اور موسٰی نے اپنی قوم میں سے ستر مرد ہمارے وعدہ گاہ پر لانے کے لیے چن لیے، پھر جب انہیں زلزلہ نے پکڑ ا تو کہا اے میرے رب! اگر تو چاہتا تو پہلے ہی انہیں اور مجھے ہلاک کر دیتا، کیا تو ہمیں اس کام پر ہلاک کرتا ہے جو ہماری قوموں کے بے وقوفوں نے کیا، یہ سب تیری آزمائش ہے، جسے تو چاہے اس سے گمراہ کر دے اور جسے چاہے سیدھا رکھے، تو ہی ہمارا کارساز ہے سو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر، اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔
موسی علیہ السلام نے انہیں ایک جگہ چھوڑا اور ان سے کہا تھا کہ آپ اسی جگہ روکیں میں اللہ تعالی سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل کرلوں لیکن قوم نے کہا اے موسی ہم اس وقت تک تیرا یقین نہیں کریں گے جب تک اللہ تعالی کو سامنے دیکھ نہ لیں جس پر انہیں زلزلہ نے دبوچ لیا وہ ہلاک ہوئے،موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے مناجات کی معافی مانگ لی اور درخواست رکھی کہ انہیں زندہ کرلیں ورنہ وہ قوم کو کیا جواب دیں گے بہرحال اللہ تعالی نے ان لوگوں کو دوبارہ زندہ کرلیا.
{ثُـمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ}
[سورة البقرة:56]
ترجمہ
پھر ہم نے تمہیں تمہاری موت کے بعد زندہ کر اٹھایا تاکہ تم شکر کرو۔
بنی اسرائیل میدان تیہ میں
فرعون سے نجات کے بعد حضرت موسی علیہ السلام کو حکم ملا کہ اپنی قوم کو لیکر ارض مقدس میں داخل ہوجائیں اور کفار سے جہاد کریں قوم نے بیت المقدس کے قریب پہنچ کر بزدلی کا مظاہرہ کیا اور موسی علیہ السلام سے کہا:
{قَالُوْا يَا مُوْسٰٓى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَـهَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِيْـهَا ۖ فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُوْنَ}
[سورة المائدة:24]
ترجمہ
کہا اے موسیٰ! ہم کبھی وہاں داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ اس میں ہیں، سو تو اور تیرا رب جائے اور تم دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔
پس انہیں یہ سزا ملی کہ چالیس سال تک میدان تیہ میں بھٹکتے رہے انہیں منزل کا نشان ہی نہ ملا اسی میدان میں اللہ تعالی نے ان کے لئے من و سلوی اتارا انہوں نے جب پانی کی فرمائش کر دی تب ان کیلئے زمین سے چشمے نکالے۔
{وَاِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَـهُـمْ ۖ كُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّـٰهِ وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ }
[سورة البقرة:60 ]
ترجمہ
پھر جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنے عصا کو پتھر پر مار، سو اس سے بارہ چشمے بہہ نکلے ہر قوم نے اپنا گھاٹ پہچان لیا، اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے کھاؤ پیو اور زمین میں فساد مچاتےنہ پھرو۔
پھر اس میدان تیہ کے اوپر ایک بادل سائبان کی شکل میں آیا یہی پر حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کا انتقال ہوا یوشع بن نون علیہ السلام ان کے جانشین بنے،پھر وہ بیت المقدس میں داخل ہوئے:
{وَاِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوْا مِنْـهَا حَيْثُ شِئْتُـمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّـةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ ۚ وَسَنَزِيْدُ الْمُحْسِنِيْنَ }
[سورة البقرة:58]
ترجمہ
اور جب ہم نے کہا اس شہر میں داخل ہو جاؤ پھر اس میں جہاں سے چاہو بے تکلفی سے کھاؤ اور دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو اور کہتے جاؤ بخش دے، تو ہم تمہارے قصور معاف کر دیں گے، اور نیکی کرنے والوں کو زیادہ بھی دیں گے۔
فوائد سلوکیہ
{وَاَوْحَيْنَـآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى اَنْ اَرْضِعِيْهِ ۖ فَاِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَاَلْقِيْهِ فِى الْيَـمِّ وَلَا تَخَافِىْ وَلَا تَحْزَنِىْ ۖ اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَيْكِ وَجَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ}
[سورة القصص:7]
ترجمہ
اور ہم نے موسٰی کی ماں کو حکم بھیجا کہ اسے دودھ پلا، پھر جب تجھے اس کا خوف ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر، بے شک ہم اسے تیرے پاس واپس پہنچا دیں گے اور اسے رسولوں میں سے بنانے والے ہیں۔
اس عظیم آیت کریمہ میں دو حکم اور دو خوشخبریاں ہیں دو حکم بچے کو دودھ پلانا اور دریا میں ڈال دینے کا حکم اور دو خوشخبریاں بچے کو دوبارہ ماں کے پاس بھیجنے کا وعدہ اور رسول و نبی بنانے کی عظیم خوشخبری،پس موسی علیہ السلام کی ماں کا یقین اطمنان اور اللہ تعالی پر حسن توکل کمال کا تھا چنانچہ حکم ہوا
{اَنِ اقْذِفِيْهِ فِى التَّابُوْتِ فَاقْذِفِيْهِ فِى الْيَـمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَـمُّ بِالسَّاحِلِ يَاْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّىْ وَعَدُوٌّ لَّـهٝ ۚ وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّىْۚ وَلِتُصْنَـعَ عَلٰى عَيْنِىْ }
[سورة طه:39]
ترجمہ
کہ اسے صندوق میں ڈال دے پھر اسے دریا میں ڈال دے پھر دریا اسے کنارے پر ڈال دے گا اسے میرا دشمن اور اس کا دشمن اٹھا لے گا، اور میں نے تجھ پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی(لوگوں کے دلوں میں )، اور تاکہ تو میرے سامنے پرورش پائے(خصوصی تربیت اور اہتمام)۔
{وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِىْ}
[سورة طه:41]
ترجمہ
اور میں نے تجھے خاص اپنے واسطے بنایا۔
یہ موسی علیہ السلام کے لئے انتہائی شرف و منزلت کی بات ہے۔
{فَلَمَّا جَآءَهَا نُـوْدِىَ اَنْ بُوْرِكَ مَنْ فِى النَّارِ وَمَنْ حَوْلَـهَاۚ وَسُبْحَانَ اللّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ}
[سورة النمل:8]
پھر جب موسٰی وہاں آئے تو آواز آئی کہ جو آگ میں اور اس کے پاس ہے وہ با برکت ہے، اور اللہ پاک ہے جو تمام جہان کا رب ہے۔
یعنی جس جگہ موسی علیہ السلام پر وحی ہوئی تھی آس پاس کی ہر چیز کو بابرکت قرار دی گئی،برکت کا معنی خیر و بھلائی کا نزول اور دوام ہے،بھلائی کا ہمیشہ رہنا ہے،برکت کی دو قسمیں: پہلی قسم ذات میں برکت یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین آپ کے پسینہ مبارک اور وضو کے پانی سے برکت حاصل کرتے تھے دوسری قسم اقوال افعال زمانہ اور جگہوں پر برکت،اقوال میں برکت سے مراد قرآن مجید ہے۔
{كِتَابٌ اَنْزَلْنَاهُ اِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوٓا اٰيَاتِهٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُو الْاَلْبَابِ}
[سورة ص:29]
ترجمہ
ایک کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی بڑی برکت والی تاکہ وہ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ عقلمند نصحیت حاصل کریں۔
اس کتاب عظیم میں شفا و برکت ہے،اس میں غور و فکر تدبر و تعقل اس کی تلاوت ہر ہر کام میں برکت ہے،المیہ یہ ہے کہ ہم نے محض قرات تک محدود رکھا ورنہ اس کتاب کے ذریعے اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہوتا توسل حاصل ہوتا یہ کتاب برکتوں سے لبریز ہے۔
افعال میں برکت سے مراد وہ تمام افعال جن کے کرنے کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے ان کی بجا آواری باعث خیر و برکت ہے،دنیا آخرت دونوں میں،جگہوں پر برکت سے مراد مسجدیں ہیں خصوصا مسجد حرام مسجد نبوی اور مسجد اقصی اسی طرح مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ،زمانے میں برکت سے مراد رمضان المبارک،لیلة القدر،رمضان کا آخری عشرہ،ذوالحجہ کی دس تاریخ،اسی طرح کچھ چیزوں پر بھی برکت ہے جیسے زمزم،زیتون،کسی معین چیز اور شخص سے متعلق تب تک نہیں کہا جائے گا کہ یہ بابرکت ہے جب تک اس کا مبارک ہونا نصوص سے ثابت نہ ہوجائے،ہاں ہم دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ اس شخص چیز اور جگہ کو مبارک اور بابرکت بنا دے ۔
شاركنا بتعليق
بدون تعليقات حتى الآن.