لکھے ہوئے سے کون بھاگ سکتا ہے

الثلاثاء _9 _فبراير _2021AH admin
لکھے ہوئے سے کون بھاگ سکتا ہے

سماجی کچھ محاورے اور روزہ مرہ استعمال کے جملے ایسے ہیں جن سے عقیدہ جبر کی بو آتی ہے کہ انسان تقدیر اور لکھے ہوئے کے آگے بے بس اور مجبور ہے اس کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہیں،جیسے یہ مثال :
“لکھے ہوئے سے کون بھاگ سکتا ہے”
یہ عقیدہ اسلامی نقطہ نظر سے مسترد ہے،قرآنی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسان اپنے کاموں اور باتوں میں خود مختار اور آزاد ہے،وہ اپنے فیصلے خود کرتا ہے،تقدیر کا صفحہ تو اللہ تعالی کے اس علم کا عکس ہے جس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اس بندے نے اپنے اختیار اور آزادی کے ساتھ کیا اعمال کرنے ہیں نہ کہ جو لکھا گیا ہے اسے ہم پر تھونپ دینے کا نام ہے۔

شاركنا بتعليق


عشرين − أربعة =




بدون تعليقات حتى الآن.