سچ کی اہمیت

السبت _27 _فبراير _2021AH admin
سچ کی اہمیت

سماج میں افراد کے باہم تعامل کیلئے سچ کی ضرورت:
سچ اجتماعی زندگی کی ضرورت ہے،بلکہ یہ افراد اور امت کیلئے سعادت مندی کا سب سے بڑا دروازہ ہے۔
شاید کہ امتوں کی ترقی کا حقیقی زینہ اس کے افراد کے قول و فعل اور عمل میں سچائی کا ہونا ہے،یہ بہت بڑی مصیبت ہے کہ سماج میں سچائی اور سچ کا فقدان ہو ،لوگ ایک دوسرے پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں،جھوٹ ان کے درمیان عام ہوجائے کہ ان کی باتوں میں جھوٹ،ان کے کاموں میں جھوٹ،ان کے ارادوں میں جھوٹ۔
چنانچہ تمام شریعتوں میں سچ پر زور دیا گیا ہے جب کہ جھوٹ کو سخت ناپسند قرار دیا گیا ہے۔
اجتماعی تعلقات اور انسانی معاملات کا دارو مدار اور انحصار سچ اور سچائی پر ہے،اگر سچ کا وجود نہ ہو تو سماجی تعلقات بکھر جائیں گے،تصور کیجئے کہ جھوٹ پر مبنی سماج میں کس قدر انتشار اور افتراق اور آپس میں عدم تعاون اور بے یقینی کی صورتحال ہوگی.
یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی سماج کے افراد باہم ایک دوسرے کے ساتھ سچائی کا رویہ نہ اپنائیں اور وہ معاشرہ قائم رہے؟اس سماج کی ثقافت،تاریخ،ترقی کا کیا بنے گا جس کے افراد سے سچ رخصت ہوا ہو ؟
پھر کیسے علوم و معارف کو مستند مانا جائے گا جس سماج سے سچ غائب ہوچکا ہو ؟
پھر کیونکر اس معاشرے کی تاریخ اور خبروں کو سچا مانا جائے گا جس معاشرے کی ایک اہم بنیاد یعنی کہ سچائی منہدم ہوچکی ہو؟
پھر کیسے وعدوں اور معاہدوں پر اعتبار کیا جائے گا جب معاشرے سے سچ ناپید ہوچکا ہو ؟
کیسے دعوے،گواہی،دلائل اور ثبوتوں کو معتبر مانا جائے گا جہاں سچ کی جگہ جھوٹ نے لیا ہو؟
کیسے کوئی سماج انحطاط و زوال کاہش و ادبار سے بچ جائے گا جہاں معیار بدل گئے ہوں،مکر و فریب جھوٹ اور دھوکہ اس سماج کی پہچان ہو کہ جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا تھا.
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لوگوں پر بہت سال ایسے آئیں گے
جن میں دھوکا ہی دھوکا ہوگا ،اس وقت جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا، بددیانت کو امانت دار تصور کیا جائے گا اور امانت دار کو بددیانت اور رویبضہ (گرے پڑے نا اہل لوگ )قوم کی طرف سے نمائندگی کریں گے۔
عرض کیا گیا:
رُوَیْبَضَۃسے کیا مراد ہے؟
فرمایا:وہ نا اہل اور بے قیمت آدمی ،
جو عام لوگوں کے اہم معاملات میں رائے زنی کرے۔
(احمد،ابن ماجہ،حاکم )
کیا ہی خوبصورت ہوگا کہ سچ لوگوں کے درمیان عام ہوجائے،خاندانوں کے درمیان سچ ،پڑوسیوں کے درمیان سچ،گھروں،سکولوں اور کمپنیوں میں سچ،سڑکوں،دکانوں اور بازاروں میں سچ،ہر جگہ سچ ،ہر انسان کے ساتھ سچ.
لازمی ہے کہ والدین،خصوصی طور پر مائیں،اساتذہ بچوں کے دلوں اور ذہنوں میں سچائی کے بیچ بوئیں یہاں تک کہ ان کی نشوونما سچائی پر ہو ان کے رویوں،باتوں اور کاموں سے سچائی کی مہک آئے۔
حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ (اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے)روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں موجود تھے کہ میری والدہ نے مجھے یوں بلایا: ادھر آؤ، میں تمہیں کچھ دوں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارا (بچے کو) کچھ دینے کا ارادہ تھا؟ میری والدہ نے عرض کیا : جی میرا ارادہ تھا کہ اسے کھجور دوں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارا کچھ دینے کا ارادہ نہ ہوتا (اور صرف بچے کو پاس بلانے کے لیے یوں ہی ایسے الفاظ کہہ دیتی) تو تمہارے نامہ اعمال میں ایک جھوٹ لکھ دیاجاتا۔(احمد ،ابو دواد بیھقی)
آج کتنی ہی مائیں ہیں جو اپنے بچوں سے جھوٹ بولتی ہیں کتنے ہی ایسے باپ ہیں جو اپنی اولاد سے جھوٹ بولتے ہیں،وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے بچوں کی جھوٹ پر پروش کر رہے ہیں،کہاں ہیں وہ والدین جو اپنی اولاد کی تربیت سچ پر کریں جو اپنی اولاد کو سچائی کے راستے پر چلائیں؟

شاركنا بتعليق


3 × خمسة =




بدون تعليقات حتى الآن.