فکر و سلوک کی پاکیزگی

السبت _20 _مارس _2021AH admin
فکر و سلوک کی پاکیزگی

فکر و سلوک کی پاکیزگی

جنت کا حصول، جہنم سے نجات،اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر و نواہی کا قبول کرنا،استقامت اختیار کرنا قلب و فکر کی پاکیزگی کے بغیرممکن ہی نہیں ہے۔
فکر و سلوک کی پاکیزگی سے مراد اللہ تعالی کیلئے خالص ہونا، اپنی فکر و نظر اور سوچ و اپروچ کو شبہات و شہوات اور اعتراضات سے پاک صاف کرنا ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ ۖ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ سَـمِيْعٌ عَلِـيْمٌ}
[سورة الحجرات:1]
ترجمہ
(اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پہل نہ کرو، اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔)
ایک اور جگہ فرمایا :
{فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُـوْنَ حَتّـٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَـهُـمْ ثُـمَّ لَا يَجِدُوْا فِىٓ اَنْفُسِهِـمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا}
[سورة النساء:65]
ترجمہ :
(سو تیرے رب کی قسم ہے یہ کبھی مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ اپنے اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں پھر تیرے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور خوشی سے قبول کریں۔)
ان آیات کریمہ کا مفہوم و مقصود یہ ہے کہ ایک مسلمان کے لئے صرف احکام و شریعت کا ظاہری ماننا کافی نہیں ہے بلکہ دل سے ماننا مطلوب ہے اس کا دل پاک صاف ہو، شریعت کو بوجھ سمجھ کر نہ مانے بلکہ دل سے تسلیم کرے،کوئی اعتراض، کوئی تردد اور پس و پیش اگر مگر، کوئی شبہ اس کے قریب بھی نہ آئے وہ سراپا تسلیم و رضا ہوجائے،خواہ اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ملے احکامات کی حکمتوں کا اسے ادراک ہو یا نہ ہو بہرحال وہ تسلیم کا خوگر ہو چونکہ مسلمان کا معنی ہی تسلیم اور ماننا ہے،آج ہمارے معاشرے میں بہت سارے طبقات ایسے پائے جاتے ہیں جو کج فہمی اور فکری مغالطوں کے شکار ہیں،ان میں لبرلز اور فلاسفرز ہیں،وہ دین اسلام کی من چاہی تشریحات پیش کرتے ہیں،ان میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ جب وحی اور عقل کا تعارض ہوجائے تو عقل مقدم رکھی جائے گی،کچھ کہتے ہیں فلسفہ سے ایمان ثابت کیا جائے گا کچھ کا کہنا ہے کہ جب کسی مسئلے میں مختلف آراء پائی جاتی ہوں تو ہم اپنی من پسند رائے لیں گے،کچھ کہتے ہیں مصالح و مقاصد کے پیش نظر دین کے کچھ احکامات ترک کئے جاسکتے ہیں،کہتے ہیں ہم دین کا معتدل چہرہ پیش کریں گے،ہم تشدد پر مبنی اسلام کے خلاف ہیں،ہم مکالمہ باہمی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے علمبردار ہیں وغیرہ وغیرہ
ان سب نظریات و افکار کا ایک ہی جواب ہے کہ ہمارے لئے اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر و احکامات ریڈ لائن ہیں،وہ ہمارے لئے حدود ہیں،ہم اسلام کے صافی چشمے سے رجوع کریں گے ہم پختہ علم علماء کرام سے راہنمائی لیں گے،دین یہ نہیں ہے کہ آپ جو جی میں آئے کرتے جائیں،اسلام اللہ تعالی کا چنیدہ اور منتخب دین ہے متشدد اسلام اور معتدل اسلام کا کوئی تصور نہیں ہے اسلام اللہ تعالی کا اتارا دین ہے یہ عدل و انصاف اور آزادی والا دین ہے،یہ جہاد اور عقیدہ ولاء و براء والا دین ہے،اس میں محبتیں اور نفرتیں اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہیں،یہ دین سماج اور خاندانی سسٹم کو سنوارنے والا دین ہے۔
اس دین کا خود اللہ تعالی نے تعارف کرایا ہے۔
{اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّـٰهِ الْاِسْلَامُ}
[سورة آل عمران:19]
(بےشک دین اللہ کے ہاں فرمانبرداری ہی ہے)

شاركنا بتعليق


18 − 3 =




بدون تعليقات حتى الآن.