کہا میں جہانوں کے پروردگار کا فرما بردار ہوں
الثلاثاء _27 _أبريل _2021AH adminستائیسواں درس:
شیخ احمد مقبل:
اس درس میں ہم کچھ ایسے وسائل کا ذکر کریں گے جو اللہ تعالی کے حکم سے تسلیم و رضا اور سلامتی والے دل کی طرف کھینچنے والے ہوں گے،اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ایمان و یقین اور تسلیم پر ثابت قدمی ہے،یہاں تک کہ بندہ مومن کا دل اللہ تعالی کی رضا اور پسندیدہ چیزوں سے منور اور مالا مال ہوتا ہے،ایسے دل والا شخص دراصل نفس مطمئنہ والا ہوتا ہے یہی وہ بندہ مومن ہے جو اللہ تعالی کی رضا اور جنتوں کا وارث ہوگا اللہ تعالی ہمیں بھی ان میں سے کر دے۔
کچھ اسباب کا تذکرہ ۔
سب سے پہلا سبب دعا اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا ہے اسی سے مانگنا ہے،یہ سب سے بڑا سبب ہے چونکہ ہمارے دل اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہیں وہ علیم و حکیم اور رحم و محبت کرنی والی ذات ہے وہی درست راہنمائی کرنے والی ذات ہے وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے جسے چاہتا ہے اپنی حکمت سے رسوا کرتا ہے،جب یہ بات طے ہے کہ توفیق صرف اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہے تو رجوع بھی پھر اسی کے در کی طرف کرنا چاہئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاوں میں اکثر حق پر دل کے ثبات کا ذکر ہوتا تھا۔
انہی دعاوں میں سے ایک دعا ۔
《اللهم إني أسألك الثبات في الأمر وأسألك عزيمة الرشد وأسألك شكر نعمتك وحسن عبادتك وأسألك لسانا صادقا وقلبا سليما وأعوذ بك من شر ما تعلم وأسألك من خير ما تعلم وأستغفرك مما تعلم إنك أنت علام الغيوب》
ترجمہ
(اے اللہ! میں تجھ سے کام میں ثبات (جماؤ ٹھہراؤ) کی توفیق مانگتا ہوں، میں تجھ سے نیکی و بھلائی کی پختگی چاہتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ تو مجھے اپنی نعمت کے شکریہ کی توفیق دے، اپنی اچھی عبادت کرنے کی توفیق دے، میں تجھ سے لسان صادق اور قلب سلیم کا طالب ہوں، میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس شر سے جو تیرے علم میں ہے اور اس خیر کا بھی میں تجھ سے طلب گار ہوں جو تیرے علم میں ہے اور تجھ سے مغفرت مانگتا ہوں ان گناہوں کی جنہیں تو جانتا ہے تو بیشک ساری پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے۔)
(سنن نسائی)
اسی طرح یہ دعا
《اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ ، وَمِنْ طَاعَتِكَ مَا تُبَلِّغُنَا بِهِ جَنَّتَكَ، وَمِنَ اليَقِينِ مَا تُهَوِّنُ بِهِ عَلَيْنَا مُصِيبَاتِ الدُّنْيَا، وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْيَيْتَنَا،وَاجْعَلْهُ الوَارِثَ مِنَّا، وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمَنَا، وَانْصُرْنَا عَلَى مَنْ عَادَانَا، وَلَا تَجْعَلْ مُصِيبَتَنَا فِي دِينِنَا، وَلَا تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا، وَلَا تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لَا يَرْحَمُنَا》
ترجمہ: اے اللہ کریم تو ہميں اپنا ايسا خوف عطا فرما جو كہ ہمارے اور تيرى نافرمانى كے درميان حائل ہو جائے ۔اور ايسى اطاعت عنایت فرما جو ہميں تیری جنت میں پہنچا دے ،اور ايسا يقين مرحمت فرما جس سے تو ہمارى دنيا كى مصيبتوں كو آسان كر دے،اور جب تك تو ہمیں زندہ رکھے تو ہمارے كانوں آنکھوں اور قوتوں سے ہم كو فائدہ پہنچا اور ان ميں سے ہر ايك وصف كو ہمارا وارث بنا ، اور ہمارا انتقام ان سے ضرور لے جنہوں نے ہم پر ظلم كيا ۔اور دشمنوں كے مقابلے ميں ہمارى مدد فرما ،اور ہمارے دين ميں مصيبت مت ڈال ، اور دنيا كو ہمارے بڑے غم كى چيز مت بنا اور نہ اس كو ہمارے ہمارے علوم كا محور بنا ،اور نہ ايسے شخص كو ہم پر مسلط فرما جو ہم پر رحم نہ كرے )
(ترمذی)
امام البانی نے اس حدیث کو حسن درجے کا کہا ہے۔
اسی طرح قرآنی دعائیں ملاحظہ کیجئے،حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعا پر غور کیجئے ۔
{رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَۖ وَاَرِنَا مَنَاسِكَـنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْـمُ○ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِـيْهِـمْ رَسُوْلًا مِّنْـهُـمْ يَتْلُوْا عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُـمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّـيْـهِـمْ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِـيْمُ ○وَمَنْ يَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْـرَاهِيْمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٝ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِى الـدُّنْيَا ۖ وَاِنَّهٝ فِى الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِيْنَ○اِذْ قَالَ لَـهٝ رَبُّهٝٓ اَسْلِمْ ۖ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِيْنَ}
[سورة البقرة :128,129,130,131]
ترجمہ
(اے ہمارے رب ہمیں اپنا فرمانبردار بنا دے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنا فرمانبردار بنا، اور ہمیں ہمارے حج کے طریقے بتا دے اور ہماری توبہ قبول فرما، بے شک تو بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے۔اے ہمارے رب! اور ان میں ایک رسول انہیں میں سے بھیج جو ان پر تیری آیتیں پڑھے اور انہیں کتاب اور دانائی سکھائے اور انہیں پاک کرے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔
اور کون ہے جو ملت ابراھیمی سے روگردانی کرے سوائے اس کے جو خود ہی احمق ہو، اور ہم نے تو اسے دنیا میں بھی بزرگی دی تھی، اور بے شک وہ آخرت میں بھی اچھے لوگوں میں سے ہوگا۔جب اسے اس کے رب نے کہا فرمانبردار ہو جا تو کہا میں جہانوں کا پروردگار کا فرمانبردار ہوں۔)
مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالی سے دعا کرنا تمام اسباب میں سے سب سے بڑھ کر نفع بخش ہے،ہاں جب اس دعا کے ساتھ طلب میں سچائی ہو ۔
دوسرا سبب :
اس عظیم کائنات کی تخلیق پر تدبر تعقل اور تفکر کرنا،آفاق اور اپنے نفسوں پر غور کرنا چونکہ یہ سب اللہ تعالی کی عظمت کی نشانیاں ہیں،اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
{سَنُرِيْهِـمْ اٰيَاتِنَا فِى الْاٰفَاقِ وَفِىٓ اَنْفُسِهِـمْ حَتّـٰى يَتَبَيَّنَ لَـهُـمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۗ اَوَلَمْ يَكْـفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٝ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيْدٌ}
[سورة فصلت:53 ]
ترجمہ
(عنقریب ہم اپنی نشانیاں انہیں کائنات میں دکھائیں گے اور خود ان کے نفس میں یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ وہی حق ہے، کیا ان کے رب کی یہ بات کافی نہیں کہ وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔)
ان نشانیوں پر غور و فکر اس عظیم کائنات کی تخلیق اس کے نظام اور اس کی ترتیب پر تفکر کرنا انسان جیسی عجیب مخلوق پر غور کرنا یہ سب چیزیں اللہ تعالی کی عظمت و بڑھائی پر دلالت کرتی ہیں،ان چیزوں پر غور و فکر بندہ مومن کے دل کو اللہ تعالی کی تعظیم سے بھر دیتی ہیں،جب ان چیزوں سے دل منور ہو تو پھر انسان سراپا تسلیم و رضا بن جاتا ہے اسے سلامتی والا دل نصیب ہوتا ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا
{اِنَّ فِىْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّـهَارِ لَاٰيَاتٍ لِّاُولِى الْاَلْبَابِ○اَلَّـذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّـٰهَ قِيَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُـوْبِهِـمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِىْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ }
[سورة آل عمران:190,191]
ترجمہ
(بے شک آسمان اور زمین کے بنانے اور رات اور دن کے آنے جانے میں البتہ عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
وہ جو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں فکر کرتے ہیں، (کہتے ہیں) اے ہمارے رب تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا تو سب عیبوں سے پاک ہے سو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا)
شاركنا بتعليق
بدون تعليقات حتى الآن.