سخاوت کی صورتیں

الجمعة _28 _مايو _2021AH admin
سخاوت کی صورتیں

ایک بار پھر کرم و سخاوت سے متعلق ہم بات کریں گے یہ وہ عظیم خوبی اور صفت ہے کہ ہم ہر وقت اور ہر بار اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں،اس تحریر میں ہم سخاوت کے فوائد اور مظاہر پر بات کریں گے۔

اول۔ سخاوت کی صورتیں
سخاوت و کرم کی متعدد صورتیں اور مختلف جگہیں ہیں،چنانچہ مقابلہ کرنے والوں کو ایک دوسرے سے اس میں مقابلہ کرنا چاہئے،ہر شخص اپنی طاقت و استطاعت کے مطابق کوشش کرتا ہے۔
سخاوت کی قسموں میں سے
1۔ اللہ تعالی نے انسان کو جو مال و دولت عطا کیا ہے اس میں سے اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنا خواہ وہ اشیاء خورو نوش کی شکل میں ہو ملبوسات،مکانات یا دوا و علاج کی شکل میں ہو یا نیکی و بھلائی کی کسی اور صورت میں،(حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ
ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، اور عرض کی، اے اللہ کے رسول ، اللہ کے ہاں محبوب ترین کون ہے؟ اور کون سے اعمال اللہ کو زیادہ پسند ہیں؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے، جو لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہے، مشکل دور کرتاہے ، قرض ادا کردیتاہے، بھوک مٹاتاہے۔ اور کسی شخص کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ چلنا، مجھے مسجد نبوی میں ایک ماہ کے اعتکاف سے بھی زیادہ پسند ہے،جس نے اپنے غصہ کو روک لیا، اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرے گا اور جس نے غصہ پیا اس حال میں کہ اسے جاری کرنا چاہے، تو کرسکتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو رضا مندی سے بھر دے گا۔ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کے کام میں چلا، یہاں تک کہ وہ کام اس کے لیے ثابت کردیا (یعنی کام کروا دیا) تو اللہ تعالیٰ اس دن اس کے قدموں کو ثابت رکھے گا》
(اس حدیث کو امام طبرانی نے معجم میں ابن ابی الدنیا نے قضاء الحوائج میں روایت کیا ہے،امام البانی نے صحیح الترغیب و الترھیب میں روایت کیا ہے۔
2۔ ایک بندے کے پاس علم و معرفت ہے وہ اپنے علم میں سخاوت کرے،سخی وہ ہوتا ہے جو اپنے علم کو نہیں چھپاتا ہے،وہ لوگوں کو علم سکھاتا ہے،ان کی راہنمائی کرتا ہے جب کہ بخیل شخص اپنے علوم و معارف کو دوسروں سے چھپاتا ہے،صحیح مسلم میں ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ 《 جو شخص ہدایت کی طرف راہنمائی کرے ہدایت پانے والے شخص کے برابر اسے اجر ملے گا ان کے اجر میں کمی نہیں ہوگی اور جو شخص کسی گمراہی کی طرف بلائے اسے گمراہ کی پیروی کرنے والے شخص جتنا گناہ ملے گا،ان کے گناہوں میں کمی نہیں کی جائے گی》
امام ترمذی نے سنن ترمذی میں ابی امامہ باھلی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو افراد کا تذکرہ ہوا ایک عالم اور دوسرا عابد آپ نے فرمایا《عالم کی عابد پر اتنی فضیلت ہے جتنی کہ تم میں سے ادنی شخص پر میری فضیلت》
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
《بے شک اللہ اور فرشتے،آسمان والے اور زمین والے،یہاں تک کہ چونٹی اپنے بل میں اور مچھلیاں سمندر میں لوگوں کو بھلائی سکھانے والے معلم کیلئے دعا کرتی ہیں》
3۔نصیحت میں سخاوت کرنا،جس شخص کو نصیحت کی ضرورت ہے اسے نصیحت کرنے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہئے،سخی شخص اپنے بھائیوں کو ایسی نصیحتیں کرنے میں بخل نہیں کرتا جن سے ان کی دنیا اور دین کا فائدہ جڑا ہوا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کے حقوق میں نصیحت کو بھی شامل اور شمار کیا ہے کہ جب نصیحت طلب کی جائے تو نصیحت کرنی چاہئے،《جب آپ سے نصیحت کا کہا جائے تو اسے نصیحت کیجئے》حدیث
امام مسلم نے صحیح مسلم میں تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
《دین نصیحت ہے،ہم نے پوچھا کس کے لئے؟ فرمایا: اللہ کیلئے،اسکی کتاب کے لئے اس کے رسولوں کیلئے اور عام مسلمانوں کیلئے》
4۔ آدمی اپنے اخلاق،خوش مزاجی،حسن تعامل،عطف و کرم،شائستگی،شگفتگی،حسن کلام،تبسم،دعا،وقت،محبت،راحت وغیرہ کے ذریعے سخاوت کرے،حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
《مومنوں میں سے کامل ایمان والا وہ ہے جو اچھے اخلاق کا مالک ہے اور تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے》
اس حدیث کو امام احمد، ابن حبان اور امام ترمذی رحمھم اللہ نے بیان کیا ہے اور امام ترمذی نے اسے “حسن صحیح” کہا ہے۔
5۔آدمی اپنی جسمانی طاقت کے ذریعے سخاوت کرے،اپنی خدمات اور طاقت کو لوگوں کی بہتری کیلیے استعمال کرے،لوگوں کی مصلحت میں خود کو تھکا دے،لوگوں کیلئے راتوں کو جاگے،صحیحین میں حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
《ہر روز جب سورج طلوع ہو جاتا ہے تو لوگوں کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہو جاتا ہے. اگر آپ دو آدمیوں کے درمیان انصاف کرو تو یہ صدقہ ہے، کسی آدمی کی سواری میں مدد دو، اسے سواری پر سوار کر لو، یا اس کا سامان لاد لو تو یہ بھی صدقہ ہے. پاکیزہ بات کرنا بھی صدقہ ہے. نماز کے لیے ہر قدم جو آپ اٹھاتے ہیں، وہ بھی صدقہ ہے. ایذا دینے والی چیز راستے سے ہٹا دو تو یہ بھی صدقہ ہے.》
6۔والدین کی عزت و احترام،ان کی خدمت اور احسان،قول ،فعل اور اخلاق کے ذریعے یہ بھی سخاوت ہے،اللہ تعالی نے اس کی وصیت فرمائی ہے۔
{وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا ۚ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَـرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّـهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْـهَرْهُمَا وَقُلْ لَّـهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا○وَاخْفِضْ لَـهُمَا جَنَاحَ الـذُّلِّ مِنَ الرَّحْـمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَـمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِىْ صَغِيْـرًا }
[سورة الإسراء:23,24]
ترجمہ
(اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو،
اور ان کے سامنے شفقت سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہو اور کہو اے میرے رب جس طرح انہوں نے مجھے بچپن سے پالا ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما.
7۔ عزیز و اقارب کا اکرام اور ان کے ساتھ سخاوت،لوگوں میں سے سب سے زیادہ آپ کی سخاوت اور کرم کے مستحق آپ کے گھر والے ہیں،ان کے ساتھ صلہ رحمی اور مربوط تعلق لازمی ہے۔
صحیح مسلم میں حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
《ایک دینار جو آپ نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا،ایک دینار جو آپ نے غلام آزاد کرنے میں خرچ کیا،ایک دینار جو آپ کسی مسکین پر خرچ کرتے ہیں،ایک دینار جو آپ اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے ہیں،اجر کے لحاظ سے گھر والوں پر خرچ کیا گیا دینار سب سے افضل ہے》چونکہ قرابت دار پر خرچ کرنا صلہ رحمی بھی ہے اور صدقہ بھی،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
《تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے بہترین ہو میں اپنے گھر والوں کیلئے بہترین ہوں》
(اس حدیث کو ترمذی،ابن حبان اور بیھقی نے روایت کیا ہے اور امام البانی نے سلسلہ صحیحیہ میں ذکر کیا ہے۔
8۔ مہمان نوازی اور پڑوسی کے اکرام میں سخاوت،حقیقی سخی وہ ہوتا ہے جو مہمان کی مہمان نوازی کرتا ہے پڑوسی کے حقوق ادا کرتا ہے،ایسا کرنا بندے کا اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان کی دلیل ہے،امام مالک نے اپنی کتاب موطأ میں اور ان سے امام بخاری و مسلم نے اپنی کتابوں میں ابی شریح العدوی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے کانوں سے سنا،اپنی آنکھوں سے دیکھا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے آپ نے فرمایا :
《 جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے،اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی مہمان نوازے کرے،جائزته کا معنی پوچھا گیا آپ نے فرمایا ایک دن اور ایک رات،مہمان نوازی تین دن کی ہوتی ہے،اس کے بعد پھر صدقہ شمار ہوگا،جو شخص اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہہ دے یا پھر خاموش رہے ۔

شاركنا بتعليق


18 − 9 =




بدون تعليقات حتى الآن.