یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
السبت _12 _يونيو _2021AH adminاللہ تعالی فرماتے ہیں:
{وَمِنَ اللَّيْلِ فَاسْجُدْ لَـهٝ وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيْلًا}
[سورة الإنسان:26]
ترجمہ :
اور کچھ حصہ رات میں بھی اس کو سجدہ کیجیے اور رات میں دیر تک اس کی تسبیح کیجیے۔
ایک اور جگہ فرمایا:
{وَاسْجُدْ وَاقْتَـرِبْ}
[سورة العلق:19]
ترجمہ :
ہرگز ایسا نہیں چاہیے، آپ اس کا کہا نہ مانیے اور سجدہ کیجیے اور قرب حاصل کیجیے۔
ایک اور جگہ فرمایا:
{اَلَّـذِىْ يَرَاكَ حِيْنَ تَقُوْمُ○وَتَقَلُّبَكَ فِى السَّاجِدِيْنَ}
[سورة الشعراء:2018،2019]
ترجمہ :
جو تجھے دیکھتا ہے جب تو اٹھتا ہے۔اور نمازیوں میں تیری نشست و برخاست دیکھتا ہے۔
ارشاد فرمایا:
{سِيْمَاهُـمْ فِىْ وُجُوْهِهِـمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ}
[سورة الفتح:29]
ترجمہ:
ان کی شناخت ان کے چہروں میں سجدہ کا نشان ہے۔
سجدہ نماز کے دیگر ارکان کے درمیان خاص اہمیت کا حامل ہے چونکہ سجدے کی حالت میں انسان رب تعالی کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے،اللہ تعالی نے آگ پر حرام کر دیا ہے کہ وہ بنی آدم کی سجدے کی جگہوں کو کھائے،انسان سجدے کی حالت میں اپنے وجود اور جسم کا سب سے معزز اور عزت والا حصہ یعنی چہرہ اور سر اللہ تعالی کے حضور جھکاتا ہے،عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتا ہے،اگر سجدے کی ظاہری صورت کے ساتھ ظاہری پیکر کے ساتھ انسان کا باطن اور جوہر اس کا دل اور ارادہ بھی اسی طرح اللہ تعالی کی عظمت،بڑھائی،کبریائی اور محبت کا اقرار کرے تو بات بنے،اس لئے کہ اللہ تعالی تک پہنچنے کا سب سے بڑا دروازہ اور ذریعہ یہی سجدہ ہے جس میں انسان عاجزی اور انکساری کا خوگر بن جاتا ہے،اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے خادم ربیع بن کعب سے فرمایا کہ مجھ سے جو مانگنا ہے مانگ لیں ربیع نے مانگا کہ اللہ کے رسول جنت میں آپ کا ساتھ چاہئے،آپ نے فرمایا تو پھر زیادہ سجدوں کے ذریعے میری مدد کریں کہ جنت میں ساتھ نصیب ہو ،امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سجدہ نماز کا راز اور بڑا رکن ہے سجدہ رکعت کا اختتام ہے،جب کہ پہلے کے دیگر ارکان نماز کے مقدمات میں سے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رکوع میں اللہ کی عظمت بیان کرو اور سجدے میں دعا کیا کرو چونکہ سجدے میں دعا قبول ہوتی ہے،بندہ مومن جب اس یقین کے ساتھ سجدہ کرے کہ وہ اللہ تعالی کے قریب ہوتا ہے تب وہ اپنی دعا لمبی کرے گا،خشوع و خضوع ہوگا،اگر دنیا میں کوئی صاحب حیثیت شخص ہم سے کہہ دیں کہ مجھ سے ملیں اور جو مانگنا ہے مانگ لیں تصور کیجئے تب ہماری حالت کیا ہوگی راتوں کو نیند نہیں آئے گی،دل بے قرار ہوگا ،جلد ملاقات کی خواہش انگڑائیاں لے گی،تو پھر ہم اس رب سے ملاقات میں غفلت کیوں برت رہے ہیں جس کے ہاتھ میں زمین و آسمان کے خزانے ہیں جنت جہنم ہے،پھر ہمارے سجدے کیوں خالی خولی اور جذبوں سے خالی ہیں؟ہماری حالت ایسی کیوں ہے کہ
جو میں سر بسجدہ ہُوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنَم آشنا، تجھے کیا مِلے گا نماز میں
کاش کہ ہمارے سجدے جاندار ہوتے تو ہمارے دل روشن ہوتے۔
سچ تو یہ ہے کہ
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
شاركنا بتعليق
بدون تعليقات حتى الآن.