رمضان کا استقبال ہم کیسے کریں

الجمعة _24 _مارس _2023AH admin
رمضان کا استقبال ہم کیسے کریں

رمضان المبارک اک عظیم موقع ہے یہی ایک مسلمان کا یقین ہونا چاہیے، یہی ہمارے سلف صالحین رضوان اللہ علیہم کا ماننا تھا ان کیلئے رمضان محض ایک مہینہ نہیں تھا بلکہ ان کے دلوں میں اس مہینے کا خاص مقام تھا جس کا اظہار انکی تیاری، دعائیں اور خشوع و عاجزی و انکساری سے ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں رمضان نصیب کرے یہ انکی دعا ہوتی تھی.
معلی بن فضل کہتے ہیں کہ صحابہ کرام چھ ماہ دعا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں رمضان نصیب کرے اور اگلے چھ ماہ اسکی قبولیت کے لیے دعا کرتے تھے.
یحیی بن ابی کثیر کہتے ہیں انکی دعائیں ہوتی تھیں کہ الہی مجھے رمضان کے حوالے کر دے اور رمضان مجھے سونپ دے ایسا سونپنا جو مجھ سے قبول کرے.
امی عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا استقبال رمضان سے متعلق فرماتی ہیں کہ آپ شعبان کا پورا مہینہ روزہ رکھتے تھے اور گاہے شعبان کا اکثر حصہ روزہ رکھتے تھے.
یہ ان کی تیاری تھی سوچنا یہ ہے کہ ہماری تیاری کیسی ہے؟
میرے بھائی آپ کے لیے میں نے یہاں استقبال رمضان سے متعلق کچھ اہم نکات جمع کیے ہیں ممکن ہے اس سے بھی کچھ اہم ہو لیکن یہ جس قدر مجھے توفیق ہوئی اس قدر ہی‍ں اللہ سے امید ہے کہ ہم اور آپ کو اس سے نفع بخش دے.
1. نیتِ خالص
رمضان المبارک کی تیاری میں سے یہ اہم ہے کہ بندہ عزم صمیم کرے کہ وہ نیکیوں میں اضافہ کرے گا اور برائیوں کو ترک کرے گا، اور اپنی تمام توانائیاں اس بات پر صرف کرے گا کہ ہر لمحہ اللہ کی خوشنودی کے حصول میں گزر جائے.
یہ ارادہ ضروری ہے چونکہ انسان نہیں جانتا ہے کہ کب اسکی زندگی کی شام ہوجائے اور اس کو بلاوا آجائے، اور اگر عمر وفا نہ کرے اللہ کا حکم آ جائے اور روح اپنے مالک کی طرف لوٹ جائے تو اس وقت بندے کو نیت کے مطابق اجر ملے گا اگرچہ اس نے ابھی عمل نہیں کیا ہو، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے نیکیوں اور برائیوں کو لکھ دیا پھر اسکی وضاحت کر دی جو شخص نیکی کا ارادہ کرے لیکن اسے عمل کا موقع نہ ملے اللہ تعالیٰ اجر لکھے گا..
[متفق علیہ ]
اور فرمایا
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کرلی.
[متفق عليہ]
ہم ایسے کئی لوگوں کو جانتے ہیں جو پچھلے رمضان المبارک میں ہمارے ساتھ تھے لیکن اس بار ہمارے ساتھ نہیں ہیں اور کتنے ہی لوگ ہیں جنہوں نے روزہ رکھنے کا ارادہ کرلیا لیکن ان کا وقت آ چکا اور وہ قبر کے اندھیرے میں جا پہنچے.
سلف میں سے کتنوں کو آپ جانتے ہیں جو روزے رکھتے تھے
ہمسایوں اور دوستوں میں سے تھے
انہیں موت نے فنی کیا آپ پیچھے رہ گیے
آئیے دور اور نزدیک کتنے ہی قریب ہیں
کتنے ہی لوگ تھے جو ایک نئے دن کا آغاز کرتے ہیں لیکن مکمل نہیں کر پاتے اور کل پر چھوڑنے والے جن کا کل نہیں آتا ہے اگر تم موت کو دیکھ لو اور اس کے ٹھکانے کو تو آپ کی خواہشات اور امیدیں دم توڑ جائیں، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک بار لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا :
[تمہیں بے کار پیدا نہیں کیا گیا ہے تمہیں فضول نہیں چھوڑا گیا ہے تمہیں لوٹنا ہے جہاں اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے کے لیے آئیں گے پس نقصان اٹھایا اور تباہ ہوا وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت سے نکل گیا اور اسکی جنت سے محروم ہوا جسکی چوڑائی آسمان زمین کے برابر ہے، کیا تم نہیں دیکھتے ہو تم ہلاک ہونے والوں کے جانشین ہو اور تمہارے وارث باقی رہنے والے بنیں گے یہی تک کہ تمہیں بہترین وارث کی طرف لوٹایا جائے گا؟
روز صبح و شام تم جنازے اٹھا کر انہیں الوداع کرتے ہو کہ جنہوں نے اپنی زندگی جی لی تم انہیں الوداع کرتے ہو، انہیں ناہموار زمین اور مٹی کے حوالے کرتے ہو اس کے رابطے اور اسباب کٹ چکے ہیں وہ مٹی کا حصہ بن چکا ہے حساب کا سامنا کر رہا ہے پیچھے رہنے والوں کا وہ محتاج نہیں رہا ہے آگے جو بھیجا اس کا محتاج ہے، اللہ کے بندو اللہ سے ڈرو اس دن کے آنے سے پہلے جو موت کا دن ہے.
اے لمبی عمر کے دھوکے میں پڑے انسان، برے عمل میں خوش انسان، موت سے ڈریں تمہیں نہیں معلوم کہ کب موت حملہ آور ہو
نیت، عزم اور اخلاص.
اگر وہ نکلنا چاہتے تو اس کی تیاری کرتے
(توبہ /46)
اگر وہ اللہ کے ساتھ سچے ہوتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا
(محمد /21)

شاركنا بتعليق


أربعة × 2 =




بدون تعليقات حتى الآن.