قلبی اعمال کی تطبیق

الخميس _26 _سبتمبر _2024AH admin
قلبی اعمال کی تطبیق

ہم عقدی اعمال سے اور اس کے مفاہیم سے متعلق سنتے رہتے ہیں،یہ کہ اعضاء کے اعمال اس کے تابع ہیں،ہم یہ بھی سنتے ہیں کہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور انسان کو وہی کچھ ملے گا جسکی وہ نیت کرتا ہے،یہ کہ دل باقی اعضاء کا بادشاہ ہے،ہم دل کی مختلف قسموں کے بارے میں بھی سنتے ہیں،زندہ دل،بیمار دل ،منافق دل،سلامتی والا دل وغیرہ ہم اخلاص،توکل ،خوف ،امید کے متعلق بھی سنتے ہیں ہم یہ سب کچھ سنتے ہیں مگر اسکی تطبیق کیسے ممکن ہے؟
پریکٹیکل کیسے ہوسکتا ہے؟
چونکہ جب قلبی اعمال کی تطبیق ہوگی تو ثمرات اور نتائج حاصل ہوں گے۔
اللہ تعالی کا ڈر ،تقوی اور بندگی کا شوق حاصل ہوگا ۔
دل میں یقین پیدا ہوگا ،یہ یقین آخرت سے متعلق بھی ہوگا اور دنیا میں زہد و عبادت سے متعلق بھی ہوگا ۔
ہاں مگر قلبی اعمال کی تطبیق کیسے ہوگی؟
سب سے پہلے تو اس بات کا شعور اور ادراک ہونا چاہئے کہ اعمال میں دل کی حاضری بہت ضروری ہے،جب یہ شعور ہوگا تب اس کے پیچھے دعا ہوگی،کوشش ہوگی،اللہ تعالی سے توفیق مانگی جائیگی اور یہ کہ اللہ تعالی ہمارے دلوں کو شفا یاب کرے،انہیں غفلت سے بیدار کرے ،ان کا علاج کرے۔
دوسری بات اعمال میں دل حاضری کیلئے کوشش کرنا اسی طرح اذکار و دعاوں کا معانی و مطالب کا فہم حاصل کرنا خواہ وہ نمازوں کے اندر کے اذکار ہوں یا باہر کے،یہ صرف فارملیٹی نہ ہو کہ بنا سمجھے صرف کلمات کو دھرایا جائے،عجلت اور جلد بازی نہ ہو ۔
فرمایا :
{لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ}
[القيامة:16]
ترجمہ
تم یاد کرنے کی جلدی میں قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔
عجلت اور جلد بازی سے بچنا،آج کل ہم ہر کام میں جلد بازی کرتے ہیں،نماز اذکار تلاوت سب میں جیسے کوئی جوجھ اتار رہے ہیں،جیسے جان چھوڑنے کی کوشش میں ہوتے ہیں،حالانکہ رسول کریم تو نماز میں راحت تلاش کرتے تھے اور بلال سے کہتے تھے بلال نماز قائم کرو اور راحت پہنچاؤ نماز کے ذریعے سے،لازمی ہے کہ سکون اور اطمینان کے ساتھ عبادات کی بجا آوری ہو،مصروفیات ترک کرکے بندگی ہو۔
اسی طرح اس بات کا علم بھی ضروری ہے کہ گناہ دل کو بیمار کرتے ہیں وہ دل پھر زندہ دل اور قلب سلیم نہیں رہتا۔
اللہ تعالی ذات و صفات اور اسماء سے متعلق علم رکھنا بھی ضروری ہے یہ علم آپکی معاونت کرے گا اعمال قلبی کی حاضری میں،اللہ تعالی کی اس کائنات میں آیات و نشانیوں کا علم آپکی قدرت اور نعمتوں کا علم ۔
اسی طرح اپنے نفس کی کمزوری کا علم ،شہوات کا علم یہ علم کہ نامحرم کی طرف دیکھنا حرام ہے،فحش گوئی حرام ہے،ریاکاری حرام ہے۔
یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ تمام قلبی اعمال کا مقابل بھی ہے جو اسے نقصان پہنچاتا ہے۔
جیسے
اخلاص کے مقابل ریا کاری ،خوف کے مقابل امید کا غلبہ،توکل کے مقابل ظاہری اسباب میں مکمل تکیہ،عفت و عصمت کے مقابل گناہوں کی طرف دروازہ کھولنا۔
توبہ کے مقابل دنیا میں مشغول ہونا،یہ علم بھی لازمی ہے کہ اسباب پر تکیہ کرنا بہت خطرناک معاملہ ہے۔
کمزور یقین سے بچنا ،جب دنیا میں کافروں اور فاجروں کا غلبہ دیکھیں،جب دیکھیں کہ ہر جگہ انکی حکومت ہے تب ایمان کمزور کرنے کی بجائے مضبوط کریں اس لئے کہ لوگوں کی اکثریت گمراہی پر ہوگی،ایک ہزار میں سے صرف ایک شخص جنت میں جائیگا جب کہ نو سو نناوے جہنم میں جائیں گے ۔
{وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ }
[یوسف:103]
ترجمہ
اور اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں خواہ تو کتنا ہی چاہے۔
آخری بات :
سب سے نفع بخش بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت و تفہیم سے جڑا جائے،اس پر غور و فکر اور تدبر کیا جائے،اسی سے دل کی زندگی ہے،دل زندہ ہوگا ۔
فرمایا :
{اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَـذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَـهٝ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيْدٌ}
[سورہ ق:37}
ترجمہ
بے شک اس میں اس شخص کے لیے بڑی عبرت ہے جس کے پاس (فہیم) دل ہو یا وہ متوجہ ہو کر (بات کی طرف) کان ہی لگا دیتا ہو۔
شیطان سے پناہ مانگی جائے،ان آیات پر ٹھرا جائے سمجھا جائے جن میں تمہارے مسئلوں کا حل موجود ہے۔
تلاوت قرآن مجید کو روز مرہ زندگی کا حصہ بنایا جائے ۔
اللہ تعالی توفیق دے

شاركنا بتعليق


5 × 3 =




بدون تعليقات حتى الآن.