حبشہ (ایتھوپیا) کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کا عقیدہ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں – جیسا کہ سیرتِ نبوی ﷺ میں آیا ہے
الأثنين _3 _نوفمبر _2025AH admin
حبشہ (ایتھوپیا) کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کا عقیدہ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں – جیسا کہ سیرتِ نبوی ﷺ میں آیا ہے:
بسم الله الرحمن الرحيم
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں، اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، ان کے اہلِ بیت اور تمام صحابہ کرام پر۔
أما بعد:
یہ سیرتِ نبویہ سے عقیدے کے دروس میں چوتھا درس ہے،
اور اس کا موضوع ہے: حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین کا عقیدہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں۔
ابنِ اسحاق نے اپنی کتاب السیر والمغازي میں ، اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے ایک حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے:
انہوں نے فرمایا: قریش نے عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ کو (تحائف) ہدایا دے کر ، نجاشی اور اس کے درباریوں کے پاس بھیجا،
تاکہ وہ مسلمانوں کو واپس مکہ لے آئیں۔
نجاشی نے مسلمانوں کو بلایا ، اور ان سے ان کے دین کے بارے میں پوچھا۔
تو جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اے بادشاہ! ہم جاہلیت میں گمراہ لوگ تھے،
بتوں کی عبادت کرتے تھے، مردار کھاتے تھے،
بدسلوکی کرتے تھے، حرام کاموں کو جائز سمجھتے تھے،
ایک دوسرے پر ظلم کرتے، خون بہاتے اور کسی چیز کو حلال یا حرام نہیں سمجھتے تھے۔
پھر اللہ سبحانه و تعالیٰ نے ہم میں سے ایک نبی مبعوث فرمایا،
جن کی سچائی، دیانت اور امانت ہم جانتے ہیں۔
انہوں نے ہمیں اللہ وحدهُ لا شریك لہ ، کی عبادت کی دعوت دی،
صلہ رحمی کا حکم دیا، اچھے پڑوسی بننے، نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور غیراللہ کی عبادت چھوڑنے کا حکم دیا۔
نجاشی نے کہا:
کیا تمہارے پاس کچھ ہے جو تمہارے نبی پر نازل ہوا ہو؟
پھر اس نے اپنے پادریوں کو بلایا،
اور حکم دیا کہ وہ اپنے مصاحف (انجیلیں) اس کے گرد کھول کر رکھ دیں۔
جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں۔
پھر انہوں نے سورة مریم کی ابتدائی آیات تلاوت کیں۔
تو نجاشی اللہ کی قسم ! اتنا رویا کہ اس کی داڑھی تر ہوگئی،
اور پادری بھی رو پڑے ، یہاں تک کہ ان کی کتابیں بھی آنسوؤں سے تر ہو گئیں۔
پھر نجاشی نے کہا:
“یقیناً یہ کلام اسی مشکوٰۃ (نور کے منبع) سے نکلا ہے،
جہاں سے موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی آئی تھی۔
جاؤ، تم سب امن کے ساتھ رہو۔
قریش کے وفد کی پہلی کوشش ناکام ہوگئی،
تو عمرو بن العاص نے اگلے دن ایک اور چال چلی۔
اس نے نجاشی سے کہا:
“اے بادشاہ! یہ لوگ عیسیٰ ابنِ مریم کے بارے میں ایک عجیب بات کہتے ہیں۔”
نجاشی نے مسلمانوں کو دوبارہ بلایا اور ان سے پوچھا۔
جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا: (هو عبد الله ورسوله وكلمته وروحه ألقاها إلى مريم العذراء البتول) ترجمه: ہم کہتے ہیں : کہ – عیسیٰ بنِ مریم، اللہ کے بندے، اس کے رسول، اس کا کلمہ ،اور اس کی روح ہیں،جو اس نے پاکیزہ کنواری مریم کی طرف ڈالی۔”
نجاشی نے ایک لکڑی اٹھائی اور کہا:
عیسیٰ بنِ مریم اس بات سے ایک ذرہ بھی زیادہ نہیں ہیں جو تم نے کہا ہے۔”
پھر اس نے مسلمانوں کو امن دے دیا،
اور وہ بہترین ہمسائے کے ساتھ بہترین سرزمین میں سکونت پذیر ہوگئے۔
یہ واقعہ ہمیں حیرت میں ڈالنے والا اور قابلِ رشک ہے کہ حبشہ کے مہاجرین نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اپنا عقیدہ پورے وضوح اور صراحت سے بیان کیا، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کا عقیدہ حبشہ کی غالب نصرانی قوم کے عقیدے سے مختلف ہے۔
لیکن انہوں نے حقیقت چھپانے یا نرمی برتنے کے بجائے سچائی سے عقیدہ بیان کیا،
اللہ سبحانه وتعالى پر بھروسہ کیا، اور اللہ ﷻ نے ان کے انجام کو اچھا کیا —
انہیں امن اور عزت کے ساتھ دار الہجرت میں ٹھکانہ دیا۔
واللہ وليّ التوفيق،
وصلى الله وسلم وبارك على نبينا محمد، وعلى آله وصحبه أجمعين.






شاركنا بتعليق
بدون تعليقات حتى الآن.