سئل فضيلة الشيخ: عن حكم دعاء أصحاب القبور؟ فأجاب بقوله: الدعاء ينقسم إلى قسمين: القسم الأول: دعاء عبادة، ومثاله الصلاة، والصوم وغير ذلك من العبادات فإذا صلى الإنسان، أو صام
المرء يتأثر بجليسه، ويعرف بمجالسه، والمسلم بمفرده يضعف عن عبادة ربه، لذا لابد له من جليس يقوي عضده للسير إلى ربه. والصحبة لها شأن كبير في الإسلام، فالأنبياء بل أولوا
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا، جس نے مجھے اپنے نفس میں یاد کیا میں اسے اپنے نفس میں یاد کروں گا
اے مسلم بہن! ہوش کے ناخن لیں، فتنے کا سبب نہ بنو، عورت کو مردوں کے لیے خاص کاموں میں لانے کی دعوت دینا اسلامی سماج میں بہت خطرناک معاملہ
حماد بن سلمہ کہتے ہیں ہمیں ثابت نے بتایا کہ صلہ کسی غزوے میں شریک تھے ان کے ان کا بیٹا بھی تھا اس نے بیٹے سے کہا اے میرے
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا انسان کو نظر بند لگ جاتی ہے؟ اس کا علاج کیا ہے؟ کیا اس سے بچنے کی ترکیب توکل کے
تیرے رب نے تجھ پر اپنی عظیم نعمتوں کی برکھا برسائی،اپنی عنایتوں اور نوازشات سے نوازا، تاکہ تم اس کا شکر بجا لاؤ اور شکر مخلوق سے مطلوب ہے. اللہ
وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ بنُ أَبِي دَاوُدَ: كَانَتْ بِنْتُ سَعِيْدٍ قَدْ خَطَبَهَا عَبْدُ المَلِكِ لابْنِهِ الوَلِيْدِ، فَأَبَى عَلَيْهِ، فَلَمْ يَزَلْ يَحْتَالُ عَبْدُ المَلِكِ عَلَيْهِ حَتَّى ضَرَبَهُ مائَةَ سَوْطٍ فِي يَوْمٍ بَارِدٍ،
سئل فضيلة الشيخ: عن حكم دعاء المخلوق؟ فأجاب – رعاه الله – بقوله: الدعاء ينقسم إلى ثلاثة أقسام: الأول: جائز وهو أن تدعو مخلوقًا بأمر من الأمور التي يمكن أن
جاء الإسلام بالأمر بصفاء المعتقد ونقاء القلب وتطهيره من أدران القوادح، ونهى عن تلويث القلب بالشبهات أو تدنيسه بالشهوات، وفي زمن البعد عن مشكاة النبوة تزداد الحاجة إلى التمسك بينابيع