عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہیں کہ اگر حماد بن سلمہ سے کہا جائے کہ آپ نے کل فوت ہونا ہے وہ اپنے عمل میں مزید کچھ اضافہ نہ کر پاتے
کسی کیلئے بھی غموں سے چھٹکارا اور خلاصی ممکن نہیں ہے خواہ کوئی بھی ہو ،اللہ تعالی فرماتے ہیں: {لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي كَبَدٍ} [البلد :4] ترجمہ بلاشبہ یقیناً ہم
اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز ،اسکی حکم عدولی اور ہلکا جاننا بہت بڑا سبب ہے جس سے انسان اپنے آپ کو بھول جاتا ہے اور اللہ تعالی
اگرچہ یہ باب پہلے والے بیان میں داخل ہے جیسے ہم نے کہا کہ پاکی کا حصول طہارت کے بغیر ناممکن ہے – پھر ہم نے طہارت کے معنی کو
یہ علم ہے پھر عمل کہاں ہے؟اکثر مسلمان علم رکھتے ہیں لیکن بہت کم ہیں جو عمل بھی کرتے ہیں- {يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ كَبُـرَ
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ تدفین کے بعد مردے کو تلقین کرنا درست ہے ؟ آپ نے جواب دیا : راجح قول یہی ہے کہ تدفین
ابو منصور الثعلبی نے الیتیمہ میں لکھا کہ میں نے شیخ ابو الطیب کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ اندلس کے اموی نے انہیں لکھا تھا۔ مصر کے
تقوی کے ثمرات اور خزانے وخزینے بہت ہیں،تقوی بہترین زاد راہ ہے،تقوی مومنوں کا راستہ ہے،جنت میں صرف متقین اور پرہیز گار لوگ ہی داخل ہوں گے،تقوی نفسانی شرارتوں،نفسیاتی اور
رامھرمزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اہل حدیث سے بغض و عناد رکھنے والے ایک گروہ نے ان پر اعتراض کیا،انہیں حقیر و کمتر جانا ،ان پر طعن و تشنیع کیا
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ میت پر قرآن پڑھنے اور اس کے سینے پر مصحف رکھنے کا کیا حکم ہے ؟ اور کیا تعزیت کیلئے دن
پیٹ بھر کر کھانا تناول کرنا،جو کہ دماغ اور پیٹ دونوں کیلئے بوجھ بن جائے ،بندے کو بندگی سے روکے،کھانے میں اسراف مختلف بیماریوں کا باعث بنتا ہے،زیادہ کھانا مادہ
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا آپ نے جواب دیا اس کا حکم قسم کا ہے،قسم کا ہی کفارہ ہے اگر کفارہ کی پوری شروط